احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

10: بَابُ: إِذَا أَخَذَ الْمُصَدِّقُ سِنًّا دُونَ سِنٍّ أَوْ فَوْقَ سِنٍّ
باب: جب زکاۃ وصول کرنے والا زکاۃ دینے والے سے مقررہ عمر سے چھوٹا یا بڑا جانور لے تو اس کے حکم کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1800
حدثنا محمد بن بشار ، ومحمد بن يحيى ، ومحمد بن مرزوق ، قالوا: حدثنا محمد بن عبد الله بن المثنى ، حدثني ابي ، عن ثمامة ، حدثني انس بن مالك ، ان ابا بكر الصديق ، كتب له: " بسم الله الرحمن الرحيم، هذه فريضة الصدقة التي فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم على المسلمين، التي امر الله عز وجل بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن من اسنان الإبل في فرائض الغنم، من بلغت عنده من الإبل صدقة الجذعة وليس عنده جذعة، وعنده حقة فإنها تقبل منه الحقة، ويجعل مكانها شاتين إن استيسرتا، او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليست عنده إلا بنت لبون، فإنها تقبل منه بنت لبون، ويعطي معها شاتين، او عشرين درهما، ومن بلغت صدقته بنت لبون وليست عنده وعنده حقة، فإنها تقبل منه الحقة ويعطيه المصدق عشرين درهما، او شاتين، ومن بلغت صدقته بنت لبون وليست عنده وعنده بنت مخاض، فإنها تقبل منه ابنة مخاض، ويعطي معها عشرين درهما، او شاتين، ومن بلغت صدقته بنت مخاض وليست عنده وعنده ابنة لبون، فإنها تقبل منه بنت لبون، ويعطيه المصدق عشرين درهما، او شاتين، فمن لم يكن عنده ابنة مخاض على وجهها وعنده ابن لبون ذكر، فإنه يقبل منه وليس معه شيء ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا: «بسم الله الرحمن الرحيم» یہ فریضہ زکاۃ کا نصاب ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس کا حکم دیا، زکاۃ کے اونٹوں کی مقررہ عمروں میں کمی بیشی کی تلافی اس طرح ہو گی کہ جس کو زکاۃ میں جذعہ (۴ چار سال کی اونٹنی) ادا کرنی ہو جو اس کے پاس نہ ہو بلکہ حقہ (تین سالہ اونٹنی) ہو تو وہی لے لی جائے گی، اور کمی کے بدلے دو بکریاں لی جائیں گی، اگر اس کے پاس ہوں، ورنہ بیس درہم لیا جائے گا، اور جس شخص کو حقہ بطور زکاۃ ادا کرنا ہو اور اس کے پاس وہ نہ ہو بلکہ بنت لبون ہو تو اس سے بنت لبون قبول کر لی جائے گی، اور وہ اس کے ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم دے گا، اور جس کو زکاۃ میں بنت لبون ادا کرنی ہو اور اس کے پاس بنت لبون نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو اس سے حقہ لیا جائے گا، اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں دے گا، اور جسے زکاۃ میں بنت لبون ادا کرنی ہو، اس کے پاس بنت لبون نہ ہو بلکہ بنت مخاض ہو تو اس سے بنت مخاض لی جائے گی، اور ساتھ میں زکاۃ دینے والا بیس درہم یا دو بکریاں دے گا، اور جس کو زکاۃ میں بنت مخاض ادا کرنی ہو اور اس کے پاس وہ نہ ہو بلکہ بنت لبون ہو تو اس سے بنت لبون لے لی جائے گی، اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے گا، اور جس کے پاس بنت مخاض نہ ہو بلکہ ابن لبون ہو تو اس سے وہی لے لیا جائے گا، اور اس کو اس کے ساتھ کچھ اور نہ دینا ہو گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة 33 (1448)، 39 (1455)، الشرکة 2 (2487)، فرض الخمس 5 (3106) الحیل 3 (6955)، سنن ابی داود/الزکاة 4 (1567)، سنن النسائی/الزکاة 5 (2449)، 10 (2457)، (تحفة الأشراف: 6582)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/11، 13) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ اگر پورے سن کی اونٹنی نہ ہو تو اس سے ایک سال زیادہ کا نر اونٹ اسی کے برابر سمجھا جائے گا، نہ صرف مال والے کو کچھ دینا ہو گا، نہ زکاۃ لینے والے کو کچھ پھیرنا پڑے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: