احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

18: بَابُ: الطَّافِي مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ
باب: پانی پر تیرنے والے مردہ سمندری شکار کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 3246
حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا مالك بن انس ، حدثني صفوان بن سليم ، عن سعيد بن سلمة من آل ابن الازرق، ان المغيرة بن ابي بردة ، وهو من بني عبد الدار حدثه انه سمع ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"البحر الطهور ماؤه الحل ميتته"، قال ابو عبد الله: بلغني عن ابي عبيدة الجواد، انه قال: هذا نصف العلم، لان الدنيا بر وبحر، فقد افتاك في البحر، وبقي البر.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوعبیدہ الجواد سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے کہا: یہ آدھا علم ہے اس لیے کہ دنیا بحر و بر یعنی خشکی اور تری کا نام ہے، تو آپ نے سمندر کے متعلق مسئلہ بتا دیا، اور خشکی (کا مسئلہ) باقی رہ گیا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة 41 (83)، سنن الترمذی/الطہارة 52 (69)، سنن النسائی/الطہارة 47 (59)، الصید 35 (4361)، (تحفة الأشراف: 14618)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 3 (12)، مسند احمد (2/37، 361، 373)، سنن الدارمی/الطہارة 52 (755) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: صحابہ کی ایک جماعت، تابعین، مالک، شافعی اور اہل حدیث کے نزدیک اس کا کھانا حلال ہے اور ابوحنیفہ کے نزدیک ناجائز، ان کی دلیل آگے آتی ہے، امام نووی کہتے ہیں: سمندر کے سب مردے حلال ہیں، خواہ خود بخود مر جائیں یا شکار سے مریں، اور مچھلی کی حلت پر اجماع ہے لیکن طافی مچھلی (یعنی جو مر کر خود بخود پانی پر تیر آئے) میں اختلاف ہے، اصحاب شافعیہ کے نزدیک مینڈ ک حرام ہے، اور باقی سمندر کے جانوروں میں تین قول ہیں: ایک یہ کہ سمندر کے کل جانور حلال ہیں، دوسرے یہ کہ مچھلی کے سوا کوئی حلال نہیں ہے، تیسرے یہ کہ جو خشکی کے جانور ہیں،ان کی شبیہ سمندر میں بھی حلال ہے جیسے سمندری گھوڑے، سمندری بکری، سمندری ہرن اور جو خشکی کے جانور حرام ہیں، ان کے شبیہ سمندر میں بھی حرام ہے جیسے سمندری کتا، سمندری سور۔واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: