احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

79: باب الْوُضُوءِ مِنَ الدَّمِ
باب: خون نکلنے سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 198
حدثنا ابو توبة الربيع بن نافع، حدثنا ابن المبارك، عن محمد بن إسحاق، حدثني صدقة بن يسار، عن عقيل بن جابر، عن جابر، قال:"خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني في غزوة ذات الرقاع، فاصاب رجل امراة رجل من المشركين فحلف ان لا انتهي حتى اهريق دما في اصحاب محمد، فخرج يتبع اثر النبي صلى الله عليه وسلم، فنزل النبي صلى الله عليه وسلم منزلا، فقال: من رجل يكلؤنا ؟ فانتدب رجل من المهاجرين ورجل من الانصار، فقال: كونا بفم الشعب، قال: فلما خرج الرجلان إلى فم الشعب، اضطجع المهاجري وقام الانصاري يصل، واتى الرجل، فلما راى شخصه عرف انه ربيئة للقوم، فرماه بسهم فوضعه فيه فنزعه حتى رماه بثلاثة اسهم، ثم ركع وسجد، ثم انتبه صاحبه، فلما عرف انهم قد نذروا به هرب، ولما راى المهاجري ما بالانصاري من الدم، قال: سبحان الله، الا انبهتني اول ما رمى ؟ قال: كنت في سورة اقرؤها فلم احب ان اقطعها".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں نکلے، تو ایک مسلمان نے کسی مشرک کی عورت کو قتل کر دیا، اس مشرک نے قسم کھائی کہ جب تک میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کا خون نہ بہا دوں باز نہیں آ سکتا، چنانچہ وہ (اسی تلاش میں) نکلا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم ڈھونڈتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے چلا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک منزل میں اترے، اور فرمایا: ہماری حفاظت کون کرے گا؟، تو ایک مہاجر اور ایک انصاری اس مہم کے لیے مستعد ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم دونوں گھاٹی کے سرے پر رہو، جب دونوں گھاٹی کے سرے کی طرف چلے (اور وہاں پہنچے تو انہوں نے طے کیا کہ باری باری پہرہ دیں گے) تو مہاجر (صحابی) لیٹ گئے، اور انصاری کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے (اور ساتھ ساتھ پہرہ بھی دیتے رہے، نماز پڑھتے میں اچانک)، وہ مشرک آیا، جب اس نے (دور سے) اس انصاری کے جسم کو دیکھا تو پہچان لیا کہ یہی قوم کا محافظ و نگہبان ہے، اس کافر نے آپ پر تیر چلایا، جو آپ کو لگا، تو آپ نے اسے نکالا (اور نماز میں مشغول رہے)، یہاں تک کہ اس نے آپ کو تین تیر مارے، پھر آپ نے رکوع اور سجدہ کیا، پھر اپنے مہاجر ساتھی کو جگایا، جب اسے معلوم ہوا کہ یہ لوگ ہوشیار اور چوکنا ہو گئے ہیں، تو بھاگ گیا، جب مہاجر نے انصاری کا خون دیکھا تو کہا: سبحان اللہ! آپ نے پہلے ہی تیر میں مجھے کیوں نہیں بیدار کیا؟ تو انصاری نے کہا: میں (نماز میں قرآن کی) ایک سورۃ پڑھ رہا تھا، مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میں اسے بند کروں (ادھوری چھوڑوں) ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 2497)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/343، 359) (حسن)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زخم سے خون بہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نہ نماز فاسد ہوتی ہے۔ جو لوگ خون کے بہنے سے وضو کے ٹوٹ جانے کے قائل ہیں، وہ ایک تو حیض اور استحاضے کے خون سے اور نکسیر کی بابت روایات سے استدلال کرتے ہیں جن میں نکسیر پھوٹنے کو بھی ناقص وضو بتلایا گیا ہے۔ حالانکہ حیض اور استحاضے کے خون کی حیثیت عام زخم سے بہنے والے خون سے یکسر مختلف ہے۔ اس لیے کہ ان کے تو احکام ہی مختلف ہیں۔علاوہ ازیں وہ خون جو شرمگاہوں سے نکلتا ہے جو بالاتفاق ناقص وضو ہے۔ جب کہ زخموں سے نکلنے والے خون کی یہ حیثیت نہیں۔ اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگوں میں زخمی ہوتے رہے اور اسی حالت میں وہ نمازیں بھی پڑھتے رہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمی صحابہ کو نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ عام زخموں سے نکلنے والا خون ناقض وضو نہیں ہے۔ علاوہ ازیں نکسیر سے وضو کرنے والی روایات سے بھی استدلال کیا جاتا ہے، جو کہ سب کی سب ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ (تفصیل دیکھیں عون المعبود)

قال الشيخ الألباني: حسن

Share this: