احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

11: باب فِي مَنْ نَامَ عَنِ الصَّلاَةِ، أَوْ نَسِيَهَا
باب: جو نماز کے وقت سو جائے یا اسے بھول جائے تو کیا کرے؟
سنن ابي داود حدیث نمبر: 435
حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن ابن المسيب، عن ابي هريرة،"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، حين قفل من غزوة خيبر فسار ليلة حتى إذا ادركنا الكرى عرس، وقال لبلال: اكلا لنا الليل، قال: فغلبت بلالا عيناه وهو مستند إلى راحلته، فلم يستيقظ النبي صلى الله عليه وسلم ولا بلال ولا احد من اصحابه حتى إذا ضربتهم الشمس، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم اولهم استيقاظا، ففزع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا بلال، فقال: اخذ بنفسي الذي اخذ بنفسك، بابي انت وامي يا رسول الله، فاقتادوا رواحلهم شيئا، ثم توضا النبي صلى الله عليه وسلم، وامر بلالا فاقام لهم الصلاة وصلى بهم الصبح، فلما قضى الصلاة، قال: من نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها، فإن الله تعالى، قال: 0 اقم الصلاة للذكرى 0"، قال يونس: وكان ابن شهاب يقرؤها كذلك، قال احمد: قال عنبسة يعني عن يونس، في هذا الحديث: لذكري، قال احمد: الكرى النعاس.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت غزوہ خیبر سے لوٹے تو رات میں چلتے رہے، یہاں تک کہ جب ہمیں نیند آنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخیر رات میں پڑاؤ ڈالا، اور بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: (تم جاگتے رہنا) اور رات میں ہماری نگہبانی کرنا، ابوہریرہ کہتے ہیں کہ بلال بھی سو گئے، وہ اپنی سواری سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے نہ بلال رضی اللہ عنہ، اور نہ آپ کے اصحاب میں سے کوئی اور ہی، یہاں تک کہ جب ان پر دھوپ پڑی تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر بیدار ہوئے اور فرمایا: اے بلال! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بھی اسی چیز نے گرفت میں لے لیا جس نے آپ کو لیا، پھر وہ لوگ اپنی سواریاں ہانک کر آگے کچھ دور لے گئے ۱؎، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھائی، جب نماز پڑھا چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب بھی یاد آئے اسے پڑھ لے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: نماز قائم کرو جب یاد آئے۔ یونس کہتے ہیں: ابن شہاب اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے (یعنی «للذكرى» لیکن مشہور قرأت: «أقم الصلاة للذكرى» (سورۃ طہٰ: ۱۴) ہے)۔ احمد کہتے ہیں: عنبسہ نے یونس سے روایت کرتے ہوئے اس حدیث میں «للذكرى» کہا ہے۔ احمد کہتے ہیں: «الكرى» «نعاس» (اونگھ) کو کہتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد 55 (680)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 10 (697)، (تحفة الأشراف: 13326)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/التفسیر 20 (3163)، سنن النسائی/المواقیت 53 (619،620)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 6(25 مرسلاً) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: