احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

89: باب فِيمَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الْجُيُوشِ وَالرُّفَقَاءِ وَالسَّرَايَا
باب: چھوٹے بڑے لشکر، اور ساتھیوں کی کون سی تعداد مستحب و مناسب ہے۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2611
حدثنا زهير بن حرب ابو خيثمة، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا ابي، قال: سمعت يونس، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله،عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"خير الصحابة اربعة، وخير السرايا اربع مائة، وخير الجيوش اربعة آلاف، ولن يغلب اثنا عشر الفا من قلة"، قال ابو داود: والصحيح انه مرسل.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہتر ساتھی وہ ہیں جن کی تعداد چار ہو ۱؎، اور چھوٹی فوج میں بہتر فوج وہ ہے جس کی تعداد چار سو ہو، اور بڑی فوجوں میں بہتر وہ فوج ہے جس کی تعداد چار ہزار ہو، اور بارہ ہزار کی فوج قلت تعداد کی وجہ سے ہرگز مغلوب نہیں ہو گی ۲؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: صحیح یہ ہے کہ یہ مرسل ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/السیر 7 (1555)، (تحفة الأشراف: 5848)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/السرایا (2728)، سنن الدارمی/السیر 4 (2482)، مسند احمد (1/294، 299) (ضعیف) (الصحيحة: 986، وتراجع الألباني: 152)

وضاحت: ۱؎: یعنی کم سے کم چار ہو کیونکہ ان میں سے اگر کبھی کوئی بیمار ہو اور وہ اپنے کسی ساتھی کو وصیت کرنا چاہے تو گواہی کے لئے ان میں سے دو باقی رہ جائیں، اس حدیث میں (بشرط صحت) مرتبہ أقل کا بیان ہے علماء نے لکھا ہے: چار سے پانچ بہتر ہیں بلکہ جس قدر زیادہ ہوں گے اتنا ہی خیر ہو گا۔
۲؎: بارہ ہزار کا لشکر اپنی قلت کے سبب ہرگز نہیں ہارے گا، اب اگر دوسری قومیں اس پر غالب آ گئیں تو اس ہار کا سبب قلت نہیں بلکہ لشکر کا عجب و غرور میں مبتلا ہونا یا اسی طرح کا کوئی اور دوسرا سبب ہو سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / ت 1555 ¤ الزهري عنعن (تقدم:145)

Share this: