احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

90: باب فِي دُعَاءِ الْمُشْرِكِينَ
باب: کفار و مشرکین کو اسلام کی دعوت دینے کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2612
حدثنا محمد بن سليمان الانباري، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث اميرا على سرية او جيش اوصاه بتقوى الله في خاصة نفسه وبمن معه من المسلمين خيرا، وقال:"إذا لقيت عدوك من المشركين، فادعهم إلى إحدى ثلاث خصال او خلال فايتها اجابوك إليها فاقبل منهم، وكف عنهم ادعهم إلى الإسلام فإن اجابوك فاقبل منهم وكف عنهم، ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين، واعلمهم انهم إن فعلوا ذلك، ان لهم ما للمهاجرين وان عليهم ما على المهاجرين فإن ابوا واختاروا دارهم، فاعلمهم انهم يكونون كاعراب المسلمين يجرى عليهم حكم الله الذي يجري على المؤمنين، ولا يكون لهم في الفيء والغنيمة نصيب إلا ان يجاهدوا مع المسلمين، فإن هم ابوا فادعهم إلى إعطاء الجزية، فإن اجابوا فاقبل منهم وكف عنهم، فإن ابوا فاستعن بالله تعالى وقاتلهم، وإذا حاصرت اهل حصن فارادوك ان تنزلهم على حكم الله تعالى فلا تنزلهم، فإنكم لا تدرون ما يحكم الله فيهم ولكن انزلوهم على حكمكم ثم اقضوا فيهم بعد ما شئتم"، قال سفيان بن عيينة: قال علقمة: فذكرت هذا الحديث لمقاتل بن حيان، فقال: حدثني مسلم، قال ابو داود: هو ابن هيصم، عن النعمان بن مقرن، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثل حديث سليمان بن بريدة.
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا سریہ کا کسی کو امیر بنا کر بھیجتے تو اسے اپنے نفس کے بارے میں اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتے، اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیتے، اور فرماتے: جب تم اپنے مشرک دشمنوں کا سامنا کرنا تو انہیں تین چیزوں کی دعوت دینا، ان تینوں میں سے جس چیز کو وہ مان لیں تم ان سے اسے مان لینا اور ان سے رک جانا، (سب سے پہلے) انہیں اسلام کی جانب بلانا، اگر تمہاری اس دعوت کو وہ لوگ تسلیم کر لیں تو تم اسے قبول کر لینا اور ان سے لڑائی کرنے سے رک جانا، پھر انہیں اپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دینا، اور انہیں یہ بتانا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے وہی چیز ہو گی جو مہاجرین کے لیے ہو گی، اور ان کے وہی فرائض ہوں گے، جو مہاجرین کے ہیں، اور اگر وہ انکار کریں اور اپنے وطن ہی میں رہنا چاہیں تو انہیں بتانا کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اللہ کا وہی حکم چلے گا جو عام مسلمانوں پر چلتا ہے، اور فے اور مال غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اور اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو انہیں جزیہ کی ادائیگی کی دعوت دینا، اگر وہ لوگ جزیہ کی ادائیگی قبول کر لیں تو ان سے اسے قبول کر لینا اور جہاد کرنے سے رک جانا، اور اگر وہ جزیہ بھی دینے سے انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرنا، اور ان سے جہاد کرنا، اور اگر تم کسی قلعہ والے کا محاصرہ کرنا اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے حکم پر اتارو، تو تم انہیں اللہ کے حکم پر مت اتارنا، اس لیے کہ تم نہیں جانتے ہو کہ اللہ ان کے سلسلے میں کیا فیصلہ کرے گا، لیکن ان کو اپنے حکم پر اتارنا، پھر اس کے بعد ان کے سلسلے میں تم جو چاہو فیصلہ کرنا۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: علقمہ کا کہنا ہے کہ میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: مجھ سے مسلم نے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ ابن ہیصم ہیں، بیان کیا انہوں نے نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے اور نعمان رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سلیمان بن بریدہ کی حدیث کے مثل روایت کیا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجھاد 2 (1731)، سنن الترمذی/السیر 48 (1617)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 38 (2858)، (تحفة الأشراف: 1929)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/352، 358)، سنن الدارمی/السیر 5 (2483) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: