احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

147: باب فِي السَّلَبِ يُعْطَى الْقَاتِلُ
باب: جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کو ملے گا۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2717
حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي، عن مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمر بن كثير بن افلح، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، عن ابي قتادة، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في عام حنين، فلما التقينا كانت للمسلمين جولة قال: فرايت رجلا من المشركين قد علا رجلا من المسلمين قال: فاستدرت له حتى اتيته من ورائه، فضربته بالسيف على حبل عاتقه، فاقبل علي فضمني ضمة وجدت منها ريح الموت ثم ادركه الموت فارسلني فلحقت عمر بن الخطاب فقلت له: ما بال الناس، قال: امر الله، ثم إن الناس رجعوا وجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال:"من قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه، قال: فقمت ثم قلت: من يشهد لي ؟ ثم جلست، ثم قال ذلك الثانية: من قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه، قال: فقمت ثم قلت: من يشهد لي ؟ ثم جلست، ثم قال ذلك الثالثة: فقمت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لك يا ابا قتادة ؟ قال: فاقتصصت عليه القصة فقال رجل من القوم: صدق يا رسول الله وسلب ذلك القتيل عندي فارضه منه، فقال ابو بكر الصديق: لاها الله إذا يعمد إلى اسد من اسد الله يقاتل عن الله، وعن رسوله فيعطيك سلبه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صدق فاعطه إياه"، فقال ابو قتادة: فاعطانيه فبعت الدرع فابتعت به مخرفا في بني سلمة فإنه لاول مال تاثلته في الإسلام.
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آ پڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہی ہوا جو اللہ کا حکم تھا، پھر لوگ لوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا: جس شخص نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا ۱؎۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (جب میں نے یہ سنا) تو میں اٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے سوچا میرے لیے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار فرمایا: جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (جب میں نے یہ سنا) تو اٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے سوچا میرے لیے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی بات کہی پھر میں اٹھ کھڑا ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوقتادہ کیا بات ہے؟ میں نے آپ سے سارا معاملہ بیان کیا، تو قوم کے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سچ کہہ رہے ہیں اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے، آپ ان کو اس بات پر راضی کر لیجئے (کہ وہ مال مجھے دے دیں) اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی ایسا نہ کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑے اور سامان تمہیں مل جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سچ کہہ رہے ہیں، تم اسے ابوقتادہ کو دے دو۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس نے مجھے دے دیا، تو میں نے زرہ بیچ دی اور اس سے میں نے ایک باغ قبیلہ بنو سلمہ میں خریدا، اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں حاصل کیا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع 37 (2100)، فرض الخمس 18 (3142)، المغازي 54 (4321، الأحکام 21 (7170)، صحیح مسلم/الجھاد 13 (1571)، سنن الترمذی/السیر 13 (1562)، سنن ابن ماجہ/ الجہاد 29 (2837)، (تحفة الأشراف: 12132)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجھاد 10 (18)، مسند احمد (5/295، 296، 306)، سنن الدارمی/السیر 44 (2528) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: جنگ حنین میں مسلمان تعداد میں زیادہ تھے، لیکن تعلي اور کثرت تعداد کے زعم کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی، میدان جنگ سے لوگ بھاگ کھڑے ہوئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور چند جانثار صحابہ رہ گئے تھے، بھگدڑ سے یہی مراد ہے، بعد میں جنگ کا پانسہ پلٹا اور مسلمان فتح یاب ہوئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: