احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

148: باب فِي الإِمَامِ يَمْنَعُ الْقَاتِلَ السَّلَبَ إِنْ رَأَى وَالْفَرَسُ وَالسِّلاَحُ مِنَ السَّلَبِ
باب: امام کو یہ اختیار ہے کہ وہ قاتل کو مقتول کا سامان نہ دے، گھوڑا اور ہتھیار بھی مقتول کے سامان میں سے ہے۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2719
حدثنا احمد بن محمد بن حنبل، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، قال: حدثني صفوان بن عمرو، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير، عن ابيه، عن عوف بن مالك الاشجعي، قال: خرجت مع زيد بن حارثة في غزوة مؤتة فرافقني مددي من اهل اليمن ليس معه غير سيفه، فنحر رجل من المسلمين جزورا فساله المددي طائفة من جلده فاعطاه إياه فاتخذه كهيئة الدرق، ومضينا فلقينا جموع الروم وفيهم رجل على فرس له اشقر عليه سرج مذهب، وسلاح مذهب فجعل الرومي يغري بالمسلمين، فقعد له المددي خلف صخرة فمر به الرومي فعرقب فرسه فخر وعلاه، فقتله وحاز فرسه وسلاحه، فلما فتح الله عز وجل للمسلمين بعث إليه خالد بن الوليد فاخذ من السلب، قال عوف: فاتيته فقلت: يا خالد اما علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى بالسلب للقاتل ؟ قال: بلى، ولكني استكثرته قلت: لتردنه عليه، او لاعرفنكها عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فابى ان يرد عليه، قال عوف: فاجتمعنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فقصصت عليه قصة المددي، وما فعل خالد فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا خالد ما حملك على ما صنعت ؟ قال: يا رسول الله استكثرته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا خالد رد عليه ما اخذت منه، قال عوف: فقلت له دونك يا خالد الم اف لك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وما ذلك فاخبرته قال: فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا خالد لا ترد عليه هل انتم تاركون لي امرائي لكم صفوة امرهم وعليهم كدره ؟".
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ غزوہ موتہ میں نکلا تو اہل یمن میں سے ایک مددی میرے ساتھ ہو گیا، اس کے پاس ایک تلوار کے سوا کچھ نہ تھا، پھر ایک مسلمان نے کچھ اونٹ ذبح کئے تو مددی نے اس سے تھوڑی سی کھال مانگی، اس نے اسے دے دی، مددی نے اس کھال کو ڈھال کی شکل کا بنا لیا، ہم چلے تو رومی فوجیوں سے ملے، ان میں ایک شخص اپنے سرخ گھوڑے پر سوار تھا، اس پر ایک سنہری زین تھی، ہتھیار بھی سنہرا تھا، تو رومی مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے اکسانے لگا تو مددی اس سوار کی تاک میں ایک چٹان کی آڑ میں بیٹھ گیا، وہ رومی ادھر سے گزرا تو مددی نے اس کے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے، وہ گر پڑا، اور مددی اس پر چڑھ بیٹھا اور اسے قتل کر کے گھوڑا اور ہتھیار لے لیا، پھر جب اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح دی تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مددی کے پاس کسی کو بھیجا اور سامان میں سے کچھ لے لیا۔ عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں خالد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور میں نے کہا: خالد! کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتل کے لیے سلب کا فیصلہ کیا ہے؟ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں، میں جانتا ہوں لیکن میں نے اسے زیادہ سمجھا، تو میں نے کہا: تم یہ سامان اس کو دے دو، ورنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملہ کو ذکر کروں گا، لیکن خالد رضی اللہ عنہ نے لوٹانے سے انکار کیا۔ عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھا ہوئے تو میں نے آپ سے مددی کا واقعہ اور خالد رضی اللہ عنہ کی سلوک بیان کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خالد! تم نے جو یہ کام کیا ہے اس پر تمہیں کس چیز نے آمادہ کیا؟ خالد نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے اسے زیادہ جانا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خالد! تم نے جو کچھ لیا تھا واپس لوٹا دو۔ عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے کہا: خالد! کیا میں نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہ کیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کیا ہے؟ عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اسے آپ سے بتایا۔ عوف کہتے ہیں: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے، اور فرمایا: خالد! واپس نہ دو، کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میرے امیروں کو چھوڑ دو کہ وہ جو اچھا کام کریں اس سے تم نفع اٹھاؤ اور بری بات ان پر ڈال دیا کرو۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجھاد 13 (1753)، (تحفة الأشراف: 10902)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/26، 27) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: