احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

3: 3- بَابُ التَّيَمُّمِ فِي الْحَضَرِ:
باب: اقامت کی حالت میں بھی تیمم کرنا جائز ہے۔
وبه قال عطاء: وقال الحسن: في المريض عنده الماء ولا يجد من يناوله يتيمم، واقبل ابن عمر من ارضه بالجرف فحضرت العصر بمربد النعم فصلى، ثم دخل المدينة والشمس مرتفعة فلم يعد.
‏‏‏‏ جب پانی نہ پائے اور نماز فوت ہونے کا خوف ہو۔ عطاء بن ابی رباح کا یہی قول ہے اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کسی بیمار کے نزدیک پانی ہو جسے وہ اٹھا نہ سکے اور کوئی ایسا شخص بھی وہاں نہ ہو جو اسے وہ پانی (اٹھا کر) دے سکے تو وہ تیمم کر لے۔ اور عبداللہ بن عمر جرف کی اپنی زمین سے واپس آ رہے تھے کہ عصر کا وقت مقام مربدالنعم میں آ گیا۔ آپ نے (تیمم سے) عصر کی نماز پڑھ لی اور مدینہ پہنچے تو سورج ابھی بلند تھا مگر آپ نے وہ نماز نہیں لوٹائی۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 337
حدثنا يحيى بن بكير، قال: حدثنا الليث، عن جعفر بن ربيعة، عن الاعرج، قال: سمعت عميرا مولى ابن عباس، قال: اقبلت انا وعبد الله بن يسار مولى ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم حتى دخلنا على ابي جهيم بن الحارث بن الصمة الانصاري، فقال ابو الجهيم:"اقبل النبي صلى الله عليه وسلم من نحو بئر جمل، فلقيه رجل فسلم عليه، فلم يرد عليه النبي صلى الله عليه وسلم حتى اقبل على الجدار فمسح بوجهه ويديه، ثم رد عليه السلام".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے جعفر بن ربیعہ سے، انہوں نے عبدالرحمٰن اعرج سے، انہوں نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عمیر بن عبداللہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں اور عبداللہ بن یسار جو کہ میمونہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے، ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری (صحابی) کے پاس آئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بئر جمل کی طرف سے تشریف لا رہے تھے، راستے میں ایک شخص نے آپ کو سلام کیا (یعنی خود اسی ابوجہیم نے) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا۔ پھر آپ دیوار کے قریب آئے اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا پھر ان کے سلام کا جواب دیا۔

Share this: