احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

40: 40- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا}:
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) ارشاد ”پس اللہ کے شریک نہ بناؤ“۔
وقوله جل ذكره: {وتجعلون له اندادا ذلك رب العالمين} وقوله: {والذين لا يدعون مع الله إلها آخر}، {ولقد اوحي إليك وإلى الذين من قبلك لئن اشركت ليحبطن عملك ولتكونن من الخاسرين بل الله فاعبد وكن من الشاكرين}. وقال عكرمة وما يؤمن اكثرهم بالله إلا وهم مشركون سورة يوسف آية 106 ولئن سالتهم من خلقهم ومن خلق السموات والارض ليقولن الله فذلك إيمانهم وهم يعبدون غيره وما ذكر في خلق افعال العباد واكسابهم لقوله تعالى: وخلق كل شيء فقدره تقديرا سورة الفرقان آية 2، وقال مجاهد ما تنزل الملائكة إلا بالحق بالرسالة والعذاب ليسال الصادقين عن صدقهم المبلغين المؤدين من الرسل وإنا له لحافظون عندنا والذي جاء بالصدق القرآن وصدق به المؤمن يقول يوم القيامة هذا الذي اعطيتني عملت بما فيه.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ حم سجدہ میں) تم اس کے شریک بناتے ہو، وہ تو تمام دنیا کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے (سورۃ الفرقان)۔ اور بلاشبہ آپ پر اور آپ سے پہلے پیغمبروں پر وحی بھیجی گئی کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل غارت ہو جائے گا اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہو جاؤ گے (سورۃ الزمر)۔ اور عکرمہ نے کہا «وما يؤمن أكثرهم بالله إلا وهم مشركون» کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ ان کا ایمان ہے لیکن عبادت غیر اللہ کی کرتے ہیں۔ اور اس باب میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ بندے کے افعال، ان کا کسب سب مخلوق الٰہی ہیں کیونکہ اللہ نے (سورۃ الفرقان میں) فرمایا اسی پروردگار نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر ایک انداز سے اس کو درست کیا۔ اور مجاہد نے کہا کہ (سورۃ الحج میں) جو ہے «ما تنزل الملائكة إلا بالحق» کا معنی یہ ہے کہ فرشتے اللہ کا پیغام اور اس کا عذاب لے کر اترتے ہیں۔ اور (سورۃ الاحزاب) میں جو فرمایا سچوں سے ان کی سچائی کا حال پوچھے یعنی پیغمبروں سے جو اللہ کا حکم پہنچاتے ہیں۔ اور (سورۃ حجر) میں فرمایا ہم قرآن کے نگہبان ہیں۔ مجاہد نے کہا یعنی اپنے پاس اور (سورۃ الزمر میں) فرمایا اور سچی بات لے کر آیا یعنی قرآن اور اس نے اس کو سچا جانا یعنی مومن جو قیامت کے دن پروردگار سے عرض کرے گا تو نے مجھ کو قرآن دیا تھا، میں نے اس پر عمل کیا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 7520
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن منصور، عن ابي وائل، عن عمرو بن شرحبيل، عن عبد الله، قال:"سالت النبي صلى الله عليه وسلم اي الذنب اعظم عند الله ؟، قال: ان تجعل لله ندا وهو خلقك، قلت: إن ذلك لعظيم، قلت: ثم اي ؟، قال: ثم ان تقتل ولدك تخاف ان يطعم معك، قلت: ثم اي ؟، قال: ثم ان تزاني بحليلة جارك".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے، ان سے عمرو بن شرجیل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا گناہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا ہے؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا گناہ ہے۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خطرہ کی وجہ سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔

Share this: