احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

69: 69- بَابُ إِذَا أُلْقِيَ عَلَى ظَهْرِ الْمُصَلِّي قَذَرٌ أَوْ جِيفَةٌ لَمْ تَفْسُدْ عَلَيْهِ صَلاَتُهُ:
باب: جب نمازی کی پشت پر (اچانک) کوئی نجاست یا مردار ڈال دیا جائے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔
وكان ابن عمر إذا راى في ثوبه دما وهو يصلي وضعه ومضى في صلاته، وقال ابن المسيب والشعبي: إذا صلى وفي ثوبه دم او جنابة او لغير القبلة او تيمم صلى، ثم ادرك الماء في وقته لا يعيد.
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز پڑھتے وقت کپڑے میں خون لگا ہوا دیکھتے تو اس کو اتار ڈالتے اور نماز پڑھتے رہتے، ابن مسیب اور شعبی کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص نماز پڑھے اور اس کے کپڑے پر نجاست یا جنابت لگی ہو، یا (بھول کر) قبلے کے علاوہ کسی اور طرف نماز پڑھی ہو یا تیمم کر کے نماز پڑھی ہو، پھر نماز ہی کے وقت میں پانی مل گیا ہو تو (اب) نماز نہ دہرائے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 240
حدثنا عبدان، قال: اخبرني ابي، عن شعبة، عن ابي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله، قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ساجد. ح قال: وحدثني احمد بن عثمان، قال: حدثنا شريح بن مسلمة، قال: حدثنا إبراهيم بن يوسف، عن ابيه، عن ابي إسحاق، قال: حدثني عمرو بن ميمون، ان عبد الله بن مسعود حدثه،"ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي عند البيت وابو جهل واصحاب له جلوس، إذ قال بعضهم لبعض، ايكم يجيء بسلى جزور بني فلان فيضعه على ظهر محمد، إذا سجد فانبعث اشقى القوم، فجاء به، فنظر حتى إذا سجد النبي صلى الله عليه وسلم وضعه على ظهره بين كتفيه وانا انظر لا اغير شيئا لو كان لي منعة، قال: فجعلوا يضحكون ويحيل بعضهم على بعض، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ساجد لا يرفع راسه حتى جاءته فاطمة، فطرحت عن ظهره، فرفع راسه، ثم قال: اللهم عليك بقريش ثلاث مرات، فشق عليهم إذ دعا عليهم، قال: وكانوا يرون ان الدعوة في ذلك البلد مستجابة، ثم سمى اللهم عليك بابي جهل، وعليك بعتبة بن ربيعة، وشيبة بن ربيعة، والوليد بن عتبة، وامية بن خلف، وعقبة بن ابي معيط، وعد السابع، فلم يحفظ، قال: فوالذي نفسي بيده لقد رايت الذين عد رسول الله صلى الله عليه وسلم صرعى في القليب قليب بدر".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا مجھے میرے باپ (عثمان) نے شعبہ سے خبر دی، انہوں نے ابواسحاق سے، انہوں نے عمرو بن میمون سے، انہوں نے عبداللہ سے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ شریف میں سجدہ میں تھے۔ (ایک دوسری سند سے) ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں۔ ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ان سے حدیث بیان کی کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی (جو) اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی) اوجھڑی اٹھا لائے اور (لا کر) جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت (آدمی) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا (عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں) میں یہ (سب کچھ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! (اس وقت) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور (ہنسی کے مارے) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے (بوجھ کی وجہ سے) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ (بات) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر (مکہ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے (ان میں سے) ہر ایک کا (جدا جدا) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں (آدمی) کا نام (بھی) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے (بددعا کرتے وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لیے تھے، میں نے ان کی (لاشوں) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔

Share this: