احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

12: 12- بَابُ مَنْ تَبَرَّزَ عَلَى لَبِنَتَيْنِ:
باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص دو اینٹوں پر بیٹھ کر قضائے حاجت کرے (تو کیا حکم ہے؟)۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 145
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن عمه واسع بن حبان، عن عبد الله بن عمر، انه كان يقول: إن ناسا، يقولون: إذا قعدت على حاجتك فلا تستقبل القبلة ولا بيت المقدس، فقال عبد الله بن عمر:"لقد ارتقيت يوما على ظهر بيت لنا، فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم على لبنتين مستقبلا بيت المقدس لحاجته، وقال: لعلك من الذين يصلون على اوراكهم، فقلت: لا ادري والله، قال مالك: يعني الذي يصلي ولا يرتفع عن الارض، يسجد وهو لاصق بالارض".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے یحییٰ بن سعید سے خبر دی۔ وہ محمد بن یحییٰ بن حبان سے، وہ اپنے چچا واسع بن حبان سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے تھے کہ لوگ کہتے تھے کہ جب قضاء حاجت کے لیے بیٹھو تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو نہ بیت المقدس کی طرف (یہ سن کر) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے دو اینٹوں پر قضاء حاجت کے لیے بیٹھے ہیں۔ پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (واسع سے) کہا کہ شاید تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنے چوتڑوں کے بل نماز پڑھتے ہیں۔ تب میں نے کہا اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا (کہ آپ کا مطلب کیا ہے) امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے وہ شخص مراد لیا جو نماز میں زمین سے اونچا نہ رہے، سجدہ میں زمین سے چمٹ جائے۔

Share this: