احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

30: 30- بَابُ التَّلاَعُنِ فِي الْمَسْجِدِ:
باب: مسجد میں لعان کرنے کا بیان۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 5309
حدثنا يحيى، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، قال: اخبرني ابن شهاب عن الملاعنة وعن السنة فيها، عن حديث سهل بن سعد اخي بني ساعدة،"ان رجلا من الانصار جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله، ام كيف يفعل ؟ فانزل الله في شانه ما ذكر في القرآن من امر المتلاعنين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: قد قضى الله فيك وفي امراتك، قال: فتلاعنا في المسجد وانا شاهد، فلما فرغا، قال: كذبت عليها يا رسول الله، إن امسكتها فطلقها ثلاثا قبل ان يامره رسول الله صلى الله عليه وسلم حين فرغا من التلاعن، ففارقها عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ذاك تفريق بين كل متلاعنين. قال ابن جريج: قال ابن شهاب: فكانت السنة بعدهما ان يفرق بين المتلاعنين وكانت حاملا وكان ابنها يدعى لامه، قال: ثم جرت السنة في ميراثها انها ترثه ويرث منها ما فرض الله له، قال ابن جريج: عن ابن شهاب، عن سهل بن سعد الساعدي في هذا الحديث، إن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:"إن جاءت به احمر قصيرا كانه وحرة فلا اراها إلا قد صدقت وكذب عليها، وإن جاءت به اسود اعين ذا اليتين فلا اراه إلا قد صدق عليها، فجاءت به على المكروه من ذلك".
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق بن ہمام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے لعان کے بارے میں اور یہ کہ شریعت کی طرف سے اس کا سنت طریقہ کیا ہے، خبر دی بنی ساعدہ کے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ قبیلہ انصار کے ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا وہ اسے قتل کر دے یا اسے کیا کرنا چاہیئے؟ انہیں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی وہ آیت نازل کی جس میں لعان کرنے والوں کے لیے تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیوی کے بارے میں فیصلہ کر دیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر دونوں نے مسجد میں لعان کیا، میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو انصاری صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر اب بھی میں اسے اپنے نکاح میں رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی۔ چنانچہ لعان سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی انہیں تین طلاقیں دے دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہی انہیں جدا کر دیا۔ (سہل نے یا ابن شہاب نے) کہا کہ ہر لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان یہی جدائی کا سنت طریقہ مقرر ہوا۔ ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ ان کے بعد شریعت کی طرف سے طریقہ یہ متعین ہوا کہ دو لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی جایا کرے۔ اور وہ عورت حاملہ تھی۔ اور ان کا بیٹا اپنی ماں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ بیان کیا کہ پھر ایسی عورت کے میراث کے بارے میں بھی یہ طریقہ شریعت کی طرف سے مقرر ہو گیا کہ بچہ اس کا وارث ہو گا اور وہ بچہ کی وارث ہو گی۔ اس کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے وراثت کے سلسلہ میں فرض کیا ہے۔ ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے، اسی حدیث میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر (لعان کرنے والی خاتون) اس نے سرخ اور پستہ قد بچہ جنا جیسے وحرہ تو میں سمجھوں گا کہ عورت ہی سچی ہے اور اس کے شوہر نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے لیکن اگر کالا، بڑی آنکھوں والا اور بڑے سرینوں والا بچہ جنا تو میں سمجھوں گا کہ شوہر نے اس کے متعلق سچ کہا تھا۔ (عورت جھوٹی ہے) جب بچہ پیدا ہو تو وہ بری شکل کا تھا (یعنی اس مرد کی صورت پر جس سے وہ بدنام ہوئی تھی)۔

Share this: