احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

4: 4- بَابُ: {أَنَّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ}:
باب: آیت کی تفسیر ”ان کو کب اس سے نصیحت ہوتی ہے حالانکہ ان کے پاس پیغمبر کھلے ہوئے دلائل کے ساتھ آ چکا ہے“۔
الذكر والذكرى واحد.
‏‏‏‏ «الذكر»، «الذكرى» دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4823
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا جرير بن حازم، عن الاعمش، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال: دخلت على عبد الله، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما دعا قريشا كذبوه، واستعصوا عليه، فقال:"اللهم اعني عليهم بسبع كسبع يوسف"، فاصابتهم سنة حصت يعني كل شيء حتى كانوا ياكلون الميتة، فكان يقوم احدهم، فكان يرى بينه وبين السماء مثل الدخان من الجهد والجوع، ثم قرا: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب اليم حتى بلغ إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون سورة الدخان آية 10 - 15، قال عبد الله: افيكشف عنهم العذاب يوم القيامة، قال: والبطشة الكبرى يوم بدر.
سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور آپ کے ساتھ سرکشی کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ! میری ان کے خلاف یوسف علیہ السلام جیسے قحط کے ذریعہ مدد فرما۔ چنانچہ قحط پڑا اور ہر چیز ختم ہو گئی۔ لوگ مردار کھانے لگے۔ کوئی شخص کھڑا ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک اور فاقہ کی وجہ سے آسمان اور اس کے درمیان دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت شروع کی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم‏» تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف سے نظر آنے والا ایک دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔ بیشک ہم چندے اس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم بھی اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا قیامت کے عذاب سے بھی وہ بچ سکیں گے؟ فرمایا کہ سخت پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی تھی۔

Share this: