احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

23: باب مَا جَاءَ كَيْفَ كَانَ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی قرأت کیسی ہوتی تھی؟
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2923
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عبد الله بن عبيد الله بن ابي مليكة، عن يعلى بن مملك، انه سال ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم عن قراءة النبي صلى الله عليه وسلم وصلاته، فقالت: ما لكم وصلاته، " كان يصلي ثم ينام قدر ما صلى، ثم يصلي قدر ما نام، ثم ينام قدر ما صلى حتى يصبح، ثم نعتت قراءته فإذا هي تنعت قراءة مفسرة حرفا حرفا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من حديث ليث بن سعد، عن ابن ابي مليكة، عن يعلى بن مملك، عن ام سلمة، وقد روى ابن جريج هذا الحديث عن ابن ابي مليكة، عن ام سلمة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " كان يقطع قراءته "، وحديث ليث اصح.
یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے، انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور آپ کی قرأت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: تمہارا اور آپ کی نماز کا کیا جوڑ؟ آپ نماز پڑھتے تھے پھر اتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر نماز پڑھے ہوتے، پھر نماز پڑھتے تھے اسی قدر جتنی دیر سوئے ہوئے ہوتے، پھر اتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر نماز پڑھے ہوتے۔ یہاں تک کہ آپ صبح کرتے، پھر انہوں نے آپ کے قرأت کی کیفیت بیان کی اور انہوں نے اس کیفیت کو واضح طور پر ایک ایک حرف حرف کر کے بیان کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اسے ہم صرف لیث بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے یعلیٰ بن مملک کے واسطہ سے ام سلمہ سے روایت کی،
۳- ابن جریج نے یہ حدیث ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا ہر حرف جدا جدا ہوتا تھا،
۴- لیث کی حدیث (ابن جریج کی حدیث سے) زیادہ صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة 355 (1466) (تحفة الأشراف: 18226) (ضعیف) (سند میں یعلی بن مملک ضعیف ہیں، مگر شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث ثابت ہے، دیکھیے آگے حدیث رقم 2927)

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (260) // (316 / 1466) //، المشكاة (1210 / التحقيق الثاني) ، // ضعيف سنن النسائي برقم (46 / 1022، 100 / 1629) //

Share this: