احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

28: باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ يَقُولَ عَلَيْكَ السَّلاَمُ مُبْتَدِئًا
باب: بات چیت کی ابتداء «علیک السلام» سے کہہ کر مکروہ ہے۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2721
حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا خالد الحذاء، عن ابي تميمة الهجيمي، عن رجل من قومه , قال: طلبت النبي صلى الله عليه وسلم فلم اقدر عليه، فجلست فإذا نفر هو فيهم ولا اعرفه وهو يصلح بينهم، فلما فرغ قام معه بعضهم فقالوا: يا رسول الله، فلما رايت ذلك , قلت: عليك السلام يا رسول الله، عليك السلام يا رسول الله، عليك السلام يا رسول الله، قال: " إن عليك السلام تحية الميت، إن عليك السلام تحية الميت، ثلاثا " ثم اقبل علي، فقال: " إذا لقي الرجل اخاه المسلم فليقل السلام عليكم ورحمة الله "، ثم رد علي النبي صلى الله عليه وسلم قال: وعليك ورحمة الله وعليك ورحمة الله وعليك ورحمة الله " , قال ابو عيسى: وقد روى هذا الحديث ابو غفار، عن ابي تميمة الهجيمي، عن ابي جري جابر بن سليم الهجيمي، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكر الحديث، وابو تميمة اسمه: طريف بن مجالد.
جابر بن سلیم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا چاہتا تھا، مگر آپ تک پہنچ نہ سکا، میں بیٹھا رہا پھر کچھ لوگ سامنے آئے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے۔ میں آپ سے واقف نہ تھا، آپ ان لوگوں میں صلح صفائی کرا رہے تھے، جب آپ (اس کام سے) فارغ ہوئے تو آپ کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! جب میں نے (لوگوں کو) ایسا کہتے دیکھا تو میں نے کہا: «علیک السلام یا رسول اللہ» ! (آپ پر سلامتی ہو اے اللہ کے رسول) اور ایسا میں نے تین بار کہا، آپ نے فرمایا: «علیک السلام» میت کا سلام ہے ۱؎، آپ نے بھی ایسا تین بار کہا، پھر آپ میری طرف پوری طرح متوجہ ہوئے اور فرمایا: جب آدمی اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ کہے «السلام علیکم ورحمة اللہ» پھر آپ نے میرے سلام کا جواب اس طرح لوٹایا، فرمایا: «وعلیک ورحمة اللہ وعلیک ورحمة اللہ وعلیک ورحمة اللہ» (تین بار)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابوغفار نے یہ حدیث بسند «ابو تمیمہ الہجیمی عن ابی جری جابر بن سلیم الہجیمی» سے روایت کی ہے، ہجیمی کہتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا پھر آگے پوری حدیث بیان کر دی۔ ابو تمیمہ کا نام طریف بن مجالد ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب 151 (5209)، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 123 (317-320) (تحفة الأشراف: 2123 و15598) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں «علیک السلام» کہنے کی جو ممانعت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں سلام کا یہی رواج تھا، ورنہ اسلام میں تو زندوں اور مردوں دونوں کے لیے «السلام علیکم» ہی سلام ہے، چنانچہ مردوں کے لیے سلام کے تعلق سے حدیث کے یہ الفاظ ہیں: «السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين»۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1403)

Share this: