احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

5: باب مَا جَاءَ لاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ
باب: وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2120
حدثنا علي بن حجر، وهناد، قالا: حدثنا إسماعيل بن عياش، حدثنا شرحبيل بن مسلم الخولاني، عن ابي امامة الباهلي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في خطبته عام حجة الوداع: " إن الله قد اعطى لكل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث الولد للفراش وللعاهر الحجر وحسابهم على الله، ومن ادعى إلى غير ابيه او انتمى إلى غير مواليه، فعليه لعنة الله التابعة إلى يوم القيامة، لا تنفق امراة من بيت زوجها إلا بإذن زوجها "، قيل: يا رسول الله: ولا الطعام، قال: " ذلك افضل اموالنا ". ثم قال: " العارية مؤداة، والمنحة مردودة، والدين مقضي، والزعيم غارم "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن عمرو بن خارجة، وانس بن مالك، وهو حديث حسن صحيح، وقد روي عن ابي امامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه، ورواية إسماعيل بن عياش، عن اهل العراق، واهل الحجاز ليس بذلك فيما تفرد به، لانه روى عنهم مناكير وروايته، عن اهل الشام اصح، هكذا قال محمد بن إسماعيل، قال: سمعت احمد بن الحسن، يقول: قال احمد بن حنبل: إسماعيل بن عياش اصلح حديثا من بقية، ولبقية احاديث مناكير عن الثقات، وسمعت عبد الله بن عبد الرحمن، يقول: سمعت زكريا بن عدي، يقول: قال ابو إسحاق الفزاري: خذوا عن بقية ما حدث عن الثقات، ولا تاخذوا عن إسماعيل بن عياش ما حدث عن الثقات، ولا عن غير الثقات.
ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، لڑکا (ولدالزنا) بستر والے کی طرف منسوب ہو گا (نہ کہ زانی کی طرف)، اور زانی رجم کا مستحق ہے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔ جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسری طرف نسبت کی یا اپنے موالی کے علاوہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا اس پر قیامت کے دن تک جاری رہنے والی لعنت ہو، کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کھانا بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: یہ ہمارے مالوں میں سب سے بہتر ہے۔ (یعنی اس کی زیادہ حفاظت ہونی چاہیئے) پھر آپ نے فرمایا: «عارية» (منگنی) لی ہوئی چیز واپس لوٹائی جائے گی، «منحة» ۱؎ واپس کی جائے گی، قرض ادا کیا جائے گا، اور ضامن ذمہ دار ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوامامہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے،
۳- اسماعیل بن عیاش کی وہ روایت جسے وہ اہل عراق اور اہل شام سے روایت کرنے میں منفرد ہیں، قوی نہیں ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے ان سے منکر حدیثیں روایت کی ہیں، اہل شام سے ان کی روایت زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا:
۴- احمد بن حنبل کہتے ہیں: اسماعیل بن عیاش حدیث روایت کرنے کے اعتبار سے بقیہ سے زیادہ صحیح ہیں، بقیہ نے ثقہ راویوں سے بہت سی منکر حدیثیں روایت کی ہیں،
۵- ابواسحاق فزاری کہتے ہیں: ثقہ راویوں کے سے بقیہ جو حدیثیں بیان کریں اسے لے لو اور اسماعیل بن عیاش کی حدیثیں مت لو، خواہ وہ ثقہ سے روایت کریں یا غیر ثقہ سے،
۶- اس باب میں عمرو بن خارجہ اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الوصایا 6 (2870)، والبیوع 90 (3565)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 6 (2713) (تحفة الأشراف: 4882)، و مسند احمد (5/267) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: وہ دودھ والا جانور جو کسی کو صرف دودھ سے فائدہ اٹھانے کے لیے دیا جاتا ہے۔
۲؎: یعنی ضامن نے جس چیز کی ذمہ داری لی ہے، اس کا ذمہ دار وہ خود ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2713)

Share this: