احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

59: باب مِنْهُ
باب:۔۔۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2514
حدثنا بشر بن هلال البصري، حدثنا جعفر بن سليمان، عن سعيد الجريري. ح وحدثنا هارون بن عبد الله البزاز، حدثنا سيار، حدثنا جعفر بن سليمان، عن سعيد الجريري المعنى واحد، عن ابي عثمان النهدي، عن حنظلة الاسيدي وكان من كتاب النبي صلى الله عليه وسلم: " انه مر بابي بكر وهو يبكي، فقال: ما لك يا حنظلة ؟ قال: نافق حنظلة يا ابا بكر نكون عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكرنا بالنار والجنة كانا راي عين فإذا رجعنا إلى الازواج والضيعة نسينا كثيرا، قال: فوالله إنا لكذلك انطلق بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانطلقنا فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما لك يا حنظلة ؟ قال: نافق حنظلة يا رسول الله نكون عندك تذكرنا بالنار والجنة كانا راي عين فإذا رجعنا عافسنا الازواج والضيعة ونسينا كثيرا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو تدومون على الحال الذي تقومون بها من عندي لصافحتكم الملائكة في مجالسكم وفي طرقكم وعلى فرشكم، ولكن يا حنظلة ساعة وساعة وساعة وساعة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
حنظلہ اسیدی رضی الله عنہ سے روایت ہے (یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبوں میں سے ایک کاتب تھے)، وہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس سے روتے ہوئے گزرا تو انہوں نے کہا: حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: ابوبکر! حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے (بات یہ ہے) کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں، اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بچوں میں واپس چلے آتے ہیں تو اس نصیحت میں سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ چلو ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، چنانچہ ہم دونوں چل پڑے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے، جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں تو ان وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بال بچوں میں واپس لوٹ جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ حنظلہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس کیفیت میں میرے پاس ہوتے ہو تو یقین جانو کہ فرشتے تمہاری مجلسوں میں، تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں، لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم 2452، 2514 (صحیح) (اور اس کے شاہد کے لیے ملاحظہ ہو: 2526)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں صحابہ کرام کے زہد و ورع اور تقویٰ کا ذکر ہے، معلوم ہوا کہ انسان کی حالت و کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی، بلکہ اس میں تغیر ہوتا رہتا ہے، اس لیے انسان جب بھی غفلت کا شکار ہو تو اسے بکثرت ذکر الٰہی کرنا چاہیئے، اور اس حالت کو جس میں غفلت طاری ہو نفاق پر نہیں محمول کرنا چاہیئے، کیونکہ انسان ہمیشہ ایک ہی حالت و کیفیت کا اپنے آپ کو مکلف بنا کر رکھے یہ ممکن نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خود ایک ہی آدمی کی ایمانی کیفیت وقتاً فوقتا گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4236)

Share this: