احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

55: بَابُ مَا جَاءَ فِي بَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ
باب: جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہو اس کے پیشاب کا حکم۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 72
حدثنا الحسن بن محمد الزعفراني، حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا حميد , وقتادة , وثابت , عن انس، ان ناسا من عرينة قدموا المدينة فاجتووها، فبعثهم رسول الله صلى الله عليه وسلم في إبل الصدقة، وقال: " اشربوا من البانها وابوالها " , فقتلوا راعي رسول الله صلى الله عليه وسلم واستاقوا الإبل وارتدوا عن الإسلام، فاتي بهم النبي صلى الله عليه وسلم فقطع ايديهم وارجلهم من خلاف وسمر اعينهم والقاهم بالحرة. قال انس: فكنت ارى احدهم يكد الارض بفيه حتى ماتوا، وربما قال حماد: يكدم الارض بفيه حتى ماتوا. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن انس، وهو قول اكثر اهل العلم، قالوا: لا باس ببول ما يؤكل لحمه.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، چنانچہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں زکاۃ کے اونٹوں میں بھیج دیا اور فرمایا: تم ان کے دودھ اور پیشاب پیو (وہ وہاں گئے اور کھا پی کر موٹے ہو گئے) تو ان لوگوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے چرواہے کو مار ڈالا، اونٹوں کو ہانک لے گئے، اور اسلام سے مرتد ہو گئے، انہیں (پکڑ کر) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دیئے، ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیں اور گرم تپتی ہوئی زمین میں انہیں پھینک دیا۔ انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا تھا کہ (وہ پیاس بجھانے کے لیے) اپنے منہ سے زمین چاٹ رہا تھا یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں مر گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور کئی سندوں سے انس سے مروی ہے،
۲- اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہو اس کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء 66 (233)، والزکاة 68 (1501)، والجہاد 152 (3018)، والمغازی 36 (492)، وتفسیر المائدة 5 (4610)، والطب 5 (5685)، و6 (5686)، و29 (5727)، والحدود 15 (6802)، و17 (6804)، و18 (6805)، والدیات 22 (6899)، صحیح مسلم/القسامة 13 (1671)، سنن ابی داود/ الحدود 3 (4367، وأیضا364)، سنن النسائی/الطہارة 191 (305)، والمحاربة 7 (4029، 4032)، و8 (4033 - 4040)، و9 (4048)، سنن ابن ماجہ/الطب 30 (3503) (تحفة الأشراف: 317)، مسند احمد (3/107، 161، 163، 170، 177، 198، 205، 233، 287، 290، ویأتی عند المؤلف برقم: 1845و2042 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا پیشاب نجس نہیں ضرورت پر علاج میں اس کا استعمال جائز ہے، اور یہی محققین محدثین کا قول ہے، ناپاکی کے قائلین کے دلائل محض قیاسات ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (177) ، الروض النضير (43)

Share this: