احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

72: باب مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
باب: شب قدر کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 792
حدثنا هارون بن إسحاق الهمداني، حدثنا عبدة بن سليمان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاور في العشر الاواخر من رمضان، ويقول: " تحروا ليلة القدر في العشر الاواخر من رمضان ". وفي الباب عن عمر، وابي بن كعب، وجابر بن سمرة، وجابر بن عبد الله، وابن عمر، والفلتان بن عاصم، وانس، وابي سعيد، وعبد الله بن انيس، وابي بكرة، وابن عباس، وبلال، وعبادة بن الصامت. قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح، وقولها يجاور يعني يعتكف، واكثر الروايات عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " التمسوها في العشر الاواخر في كل وتر ". وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم في ليلة القدر: " انها ليلة إحدى وعشرين وليلة ثلاث وعشرين وخمس وعشرين وسبع وعشرين وتسع وعشرين وآخر ليلة من رمضان ". قال ابو عيسى: قال الشافعي: كان هذا عندي والله اعلم، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يجيب على نحو ما يسال عنه، يقال له: نلتمسها في ليلة كذا، فيقول: التمسوها في ليلة كذا، قال الشافعي: واقوى الروايات عندي فيها ليلة إحدى وعشرين. قال ابو عيسى: وقد روي عن ابي بن كعب انه كان يحلف انها ليلة سبع وعشرين، ويقول: اخبرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعلامتها فعددنا وحفظنا، وروي عن ابي قلابة، انه قال: ليلة القدر تنتقل في العشر الاواخر. حدثنا بذلك عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، عن معمر، عن ايوب، عن ابي قلابة بهذا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے اور فرماتے: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر، ابی، جابر بن سمرہ، جابر بن عبداللہ، ابن عمر، فلتان بن عاصم، انس، ابو سعید خدری، عبداللہ بن انیس، ابوبکرہ، ابن عباس، بلال اور عبادہ بن صامت رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- «یُجَاوِرُ» کے معنی «یَعْتَکِفُ» اعتکاف کرتے تھے کے ہیں،
۴- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اکثر روایات یہی ہیں کہ آپ نے فرمایا: اسے آخری عشرے کی تمام طاق راتوں میں تلاش کرو، اور شب قدر کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں، اور رمضان کی آخری رات کے اقوال مروی ہیں، شافعی کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کا مفہوم - «واللہ اعلم» - یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سائل کو اس کے سوال کے مطابق جواب دیتے تھے۔ آپ سے کہا جاتا: ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں؟ آپ فرماتے: ہاں فلاں رات میں تلاش کرو،
۵- شافعی کہتے ہیں: میرے نزدیک سب سے قوی روایت اکیسویں رات کی ہے،
۶- ابی بن کعب سے مروی ہے وہ قسم کھا کر کہتے کہ یہ ستائیسویں رات ہے۔ کہتے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی علامتیں بتائیں، ہم نے اسے گن کر یاد رکھا۔ ابوقلابہ سے مروی ہے کہ شب قدر آخری عشرے میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/لیلة القدر 3 (2020)، (تحفة الأشراف: 17061) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: شب قدر کی تعیین کے سلسلہ میں علماء کے چالیس سے زائد اقوال منقول ہیں، ان میں سے راجح قول یہی ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے بغیر تعیین کے کوئی رات ہے، بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ رات آپ کو بتا دی گئی تھی لیکن پھر بھلا دی گئی، اس میں مصلحت یہ تھی کہ لوگ اس رات کی تلاش میں زیادہ سے زیادہ عبادت اور ذکر الٰہی میں مشغول رہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: