احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

87: باب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الرُّكْبَتَيْنِ قَبْلَ الْيَدَيْنِ فِي السُّجُودِ
باب: سجدے میں دونوں ہاتھ سے پہلے دونوں گھٹنے رکھنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 268
حدثنا سلمة بن شبيب، وعبد الله بن منير، واحمد بن إبراهيم الدورقي، والحسن بن علي الحلواني، وغير واحد، قالوا: حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا شريك، عن عاصم بن كليب، عن ابيه، عن وائل بن حجر، قال: " رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد يضع ركبتيه قبل يديه، وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه ". زاد الحسن بن علي في حديثه: قال يزيد بن هارون: ولم يرو شريك، عن عاصم بن كليب إلا هذا الحديث، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرف احدا رواه مثل هذا عن شريك والعمل عليه عند اكثر اهل العلم: يرون ان يضع الرجل ركبتيه قبل يديه، وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه. وروى همام عن عاصم هذا مرسلا، ولم يذكر فيه وائل بن حجر.
وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا: جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے دونوں گھٹنے اپنے دونوں ہاتھ سے پہلے رکھتے، اور جب اٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے شریک سے اس طرح روایت کیا ہو،
۲- اکثر ہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، ان کی رائے ہے کہ آدمی اپنے دونوں گھٹنے اپنے دونوں ہاتھوں سے پہلے رکھے اور جب اٹھے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے اٹھائے،
۳- ہمام نے عاصم ۲؎ سے اسے مرسلاً روایت کیا ہے۔ اس میں انہوں نے وائل بن حجر کا ذکر نہیں کیا۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة 141 (838)، سنن النسائی/التطبیق 38 (1090)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 19 (882)، و93 (1155)، (تحفة الأشراف: 1178) (ضعیف) (شریک جب متفرد ہوں تو ان کی روایت مقبول نہیں ہوتی)

وضاحت: ۱؎: جو لوگ دونوں ہاتھوں سے پہلے دونوں گھٹنوں کے رکھنے کے قائل ہیں انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے، شریک عاصم بن کلیب سے روایت کرنے میں منفرد ہیں جب کہ شریک خود ضعیف ہیں، اگرچہ اس روایت کو ہمام بن یحییٰ نے بھی دو طریق سے ایک محمد بن حجاوہ کے طریق سے اور دوسرے شقیق کے طریق سے روایت کی ہے لیکن محمد بن حجادہ والی سند منقطع ہے کیونکہ عبدالجبار کا سماع اپنے باپ سے نہیں ہے اور شقیق کی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ وہ خود مجہول ہیں۔
۲؎: ہمام نے اسے عاصم سے نہیں بلکہ شقیق سے روایت کیا ہے اور شقیق نے عاصم سے مرسلاً روایت کیا ہے گویا شقیق والی سند میں دو عیب ہیں: ایک شقیق خود مجہول ہیں اور دوسرا عیب یہ ہے کہ یہ مرسل ہے اس میں وائل بن حجر رضی الله عنہ کا ذکر نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (882) // ضعيف سنن ابن ماجة (185) ، ضعيف أبي داود (181 / 838) ، الإرواء (357) ، المشكاة (898) ، ابن خزيمة (626 و 629) //

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / د 838 ، ن 109 ، جه 882

Share this: