احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

86: باب مِنْهُ آخَرُ
باب: رکوع سے سر اٹھاتے وقت جو کہنا ہے اس سے متعلق ایک اور باب۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 267
حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا قال الإمام: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد، فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه " قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ومن بعدهم ان يقول الإمام: سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ويقول من خلف الإمام: ربنا ولك الحمد، وبه يقول: احمد، وقال ابن سيرين: وغيره يقول من خلف الإمام: سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، مثل ما يقول الإمام، وبه يقول: الشافعي , وإسحاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام «سمع الله لمن حمده‏» اللہ نے اس کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» ہمارے رب! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں کہو کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہو گیا تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ امام «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہے ۱؎ اور مقتدی «ربنا ولك الحمد» کہیں، یہی احمد کہتے ہیں،
۳- اور ابن سیرین وغیرہ کا کہنا ہے جو امام کے پیچھے (یعنی مقتدی) ہو وہ بھی «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» اسی طرح کہے گا ۲؎ جس طرح امام کہے گا اور یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان 124 (795)، و125 (796)، وبدء الخلق 7 (3228)، صحیح مسلم/الصلاة 18 (409)، سنن ابی داود/ الصلاة 144 (848)، سنن النسائی/التطبیق 23 (1064)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 18 (876)، (تحفة الأشراف: 12568)، موطا امام مالک/الصلاة 11 (47)، مسند احمد (2/236، 270، 300، 319، 452، 497، 502، 527، 533) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: متعدد احادیث سے (جن میں بخاری کی بھی ایک روایت ابوہریرہ رضی الله عنہ ہی سے ہے) یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامت کی حالت میں «سمع اللہ لمن حمدہ» کے بعد «ربنا لک الحمد» کہا کرتے تھے، اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ امام «ربنا لک الحمد» نہ کہے۔
۲؎: لیکن حافظ ابن حجر کہتے ہیں (اور صاحب تحفہ ان کی موافقت کرتے ہیں) کہ مقتدی کے لیے دونوں کو جمع کرنے کے بارے میں کوئی واضح حدیث وارد نہیں ہے اور جو لوگ اس کے قائل ہیں وہ «صلوا كما رأيتموني أصلي» جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ویسے تم بھی صلاۃ پڑھو سے استدلال کرتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (794)

Share this: