احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

7: باب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ الظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ
باب: سخت گرمی میں ظہر دیر سے پڑھنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 157
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب , وابى سلمة , عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اشتد الحر فابردوا عن الصلاة، فإن شدة الحر من فيح جهنم ". قال: وفي الباب عن ابي سعيد , وابي ذر , وابن عمر , والمغيرة , والقاسم بن صفوان، عن ابيه وابي موسى , وابن عباس , وانس، قال: وروي عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا ولا يصح. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حسن صحيح، وقد اختار قوم من اهل العلم تاخير صلاة الظهر في شدة الحر، وهو قول ابن المبارك , واحمد , وإسحاق، قال الشافعي: إنما الإبراد بصلاة الظهر إذا كان مسجدا ينتاب اهله من البعد، فاما المصلي وحده والذي يصلي في مسجد قومه، فالذي احب له ان لا يؤخر الصلاة في شدة الحر. قال ابو عيسى: ومعنى من ذهب إلى تاخير الظهر في شدة الحر هو اولى واشبه بالاتباع، واما ما ذهب إليه الشافعي، ان الرخصة لمن ينتاب من البعد والمشقة على الناس، فإن في حديث ابي ذر ما يدل على خلاف ما قال الشافعي , قال ابو ذر: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فاذن بلال بصلاة الظهر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " يا بلال ابرد " , ثم ابرد، فلو كان الامر على ما ذهب إليه الشافعي لم يكن للإبراد في ذلك الوقت معنى لاجتماعهم في السفر، وكانوا لا يحتاجون ان ينتابوا من البعد.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب گرمی سخت ہو تو نماز ٹھنڈا ہونے پر پڑھو ۱؎ کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ سے ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوسعید، ابوذر، ابن عمر، مغیرہ، اور قاسم بن صفوان کے باپ ابوموسیٰ، ابن عباس اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اس سلسلے میں عمر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں،
۴- اہل علم میں کچھ لوگوں نے سخت گرمی میں ظہر تاخیر سے پڑھنے کو پسند کیا ہے۔ یہی ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: ظہر ٹھنڈا کر کے پڑھنے کی بات اس وقت کی ہے جب مسجد والے دور سے آتے ہوں، رہا اکیلے نماز پڑھنے والا اور وہ شخص جو اپنے ہی لوگوں کی مسجد میں نماز پڑھتا ہو تو میں اس کے لیے یہی پسند کرتا ہوں کہ وہ سخت گرمی میں بھی نماز کو دیر سے نہ پڑھے،
۵- جو لوگ گرمی کی شدت میں ظہر کو دیر سے پڑھنے کی طرف گئے ہیں ان کا مذہب زیادہ بہتر اور اتباع کے زیادہ لائق ہے، رہی وہ بات جس کی طرف شافعی کا رجحان ہے کہ یہ رخصت اس کے لیے ہے جو دور سے آتا ہوتا کہ لوگوں کو پریشانی نہ ہو تو ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو اس چیز پر دلالت کرتی ہیں جو امام شافعی کے قول کے خلاف ہیں۔ ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے، بلال رضی اللہ عنہ نے نماز ظہر کے لیے اذان دی، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! ٹھنڈا ہو جانے دو، ٹھنڈا ہو جانے دو (یہ حدیث آگے آ رہی ہے)، اب اگر بات ایسی ہوتی جس کی طرف شافعی گئے ہیں، تو اس وقت ٹھنڈا کرنے کا کوئی مطلب نہ ہوتا، اس لیے کہ سفر میں سب لوگ اکٹھا تھے، انہیں دور سے آنے کی ضرورت نہ تھی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المواقیت 9 (538)، صحیح مسلم/المساجد 32 (615)، سنن ابی داود/ الصلاة 4 (402)، سنن النسائی/المواقیت 5 (501)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 4 (677)، (تحفة الأشراف: 13226، 1237)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 7 (98)، مسند احمد (2/229، 238، 256، 266، 348، 377، 393، 40، 411، 462)، سنن الدارمی/الصلاة 14 (1243)، والرقاق 119 (2887) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی کچھ انتظار کر لو ٹھنڈا ہو جائے تب پڑھو، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موسم گرما میں ظہر قدرے تاخیر کر کے پڑھنی چاہیئے اس تاخیر کی حد کے بارے میں ابوداؤد اور نسائی میں ایک روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم موسم گرما میں ظہر میں اتنی تاخیر کرتے کہ سایہ تین قدم سے لے کر پانچ قدم تک ہو جاتا، مگر علامہ خطابی نے کہا ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ طول البلد اور عرض البلد کے اعتبار سے اس کا حساب بھی مختلف ہو گا، بہرحال موسم گرما میں نماز ظہر قدرے تاخیر سے پڑھنی مستحب ہے، یہی جمہور کی رائے ہے۔
۲؎: اسے حقیقی اور ظاہری معنی پر محمول کرنا زیادہ صحیح ہے کیونکہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ جہنم کی آگ نے رب عزوجل سے شکایت کی کہ میرے بعض اجزاء گرمی کی شدت اور گھٹن سے بعض کو کھا گئے ہیں تو رب عزوجل نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ایک جاڑے میں اور ایک گرمی میں، جاڑے میں سانس اندر کی طرف لیتی ہے اور گرمی میں باہر نکالتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (678)

Share this: