احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

41: باب مَا جَاءَ أَنَّ الإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ
باب: امام ضامن اور مؤذن امین ہے۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 207
حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص , وابو معاوية , عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الإمام ضامن والمؤذن مؤتمن، اللهم ارشد الائمة واغفر للمؤذنين ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن عائشة , وسهل بن سعد , وعقبة بن عامر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة، رواه سفيان الثوري , وحفص بن غياث , وغير واحد، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم. وروى اسباط بن محمد، عن الاعمش، قال: حدثت عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم , وروى نافع بن سليمان، عن محمد بن ابي صالح، عن ابيه، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث. قال ابو عيسى: وسمعت ابا زرعة، يقول: حديث ابي صالح، عن ابي هريرة اصح من حديث ابي صالح، عن عائشة. قال ابو عيسى: وسمعت محمدا، يقول: حديث ابي صالح، عن عائشة اصح، وذكر عن علي بن المديني انه لم يثبت حديث ابي صالح، عن ابي هريرة، ولا حديث ابي صالح , عن عائشة في هذا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: امام ضامن ہے ۱؎ اور مؤذن امین ۲؎ ہے، اے اللہ! تو اماموں کو راہ راست پر رکھ ۳؎ اور مؤذنوں کی مغفرت فرما ۴؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عائشہ، سہل بن سعد اور عقبہ بن عامر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۲- مولف نے حدیث کے طرق اور پہلی سند کی متابعت ذکر کرنے اور ابوصالح کی عائشہ سے روایت کے بعد فرمایا: میں نے ابوزرعہ کو کہتے سنا کہ ابوصالح کی ابوہریرہ سے مروی حدیث ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ نیز میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے اور بخاری، علی بن مدینی کہتے ہیں کہ ابوصالح کی حدیث ابوہریرہ سے مروی حدیث ثابت نہیں ہے اور نہ ہی ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة 32 (517)، (تحفة الأشراف: 12483)، مسند احمد (2/232، 284، 378، 384، 419، 424، 461، 472، 514) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی امام مقتدیوں کی نماز کا نگراں اور محافظ ہے، کیونکہ مقتدیوں کی نماز کی صحت امام کی نماز کی صحت پر موقوف ہے، اس لیے اسے آداب طہارت اور آداب نماز کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
۲؎: یعنی لوگ اس کی اذان پر اعتماد کر کے نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں، اس لیے اسے وقت کا خیال رکھنا چاہیئے، نہ پہلے اذان دے اور نہ دیر کرے۔
۳؎: یعنی جو ذمہ داری انہوں نے اٹھا رکھی ہے اس کا شعور رکھنے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دے۔
۴؎: یعنی اس امانت کی ادائیگی میں ان سے جو کوتاہی ہو اسے بخش دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (663) ، الإرواء (217) ، صحيح أبي داود (530)

Share this: