احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

13: باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّوْمِ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالسَّمَرِ بَعْدَهَا
باب: عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کی کراہت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 168
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا عوف، قال احمد: وحدثنا عباد بن عباد هو المهلبي، وإسماعيل ابن علية جميعا، عن عوف، عن سيار بن سلامة هو ابو المنهال الرياحي، عن ابي برزة، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يكره النوم قبل العشاء والحديث بعدها ". قال: وفي الباب عن عائشة , وعبد الله بن مسعود , وانس. قال ابو عيسى: حديث ابي برزة حسن صحيح، وقد كره اكثر اهل العلم النوم قبل صلاة العشاء والحديث بعدها، ورخص في ذلك بعضهم، وقال عبد الله بن المبارك: اكثر الاحاديث على الكراهية، ورخص بعضهم في النوم قبل صلاة العشاء في رمضان، وسيار بن سلامة هو ابو المنهال الرياحي.
ابوبرزہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوبرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، عبداللہ بن مسعود اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور اکثر اہل علم نے نماز عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ کہا ہے، اور بعض نے اس کی اجازت دی ہے، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: اکثر حدیثیں کراہت پر دلالت کرنے والی ہیں، اور بعض لوگوں نے رمضان میں عشاء سے پہلے سونے کی اجازت دی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المواقیت 11 (541)، و13 (547)، و23 (568)، و38 (598)، صحیح مسلم/المساجد 40 (647)، سنن ابی داود/ الصلاة 3 (398)، والأدب 27 (4849)، سنن النسائی/المواقیت 2 (496)، و16 (526)، و20 (531)، والافتتاح 42 (949)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 3 (674)، (تحفة الأشراف: 11606)، مسند احمد (4/420، 421، 423، 424، 425)، سنن الدارمی/الصلاة 66 (1338) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: عشاء سے پہلے سونے کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عشاء فوت ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے، اور عشاء کے بعد بات کرنا اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے سونے میں تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے تہجد یا فجر کے لیے اٹھنا مشکل ہو جاتا ہے امام نووی نے علمی مذاکرہ وغیرہ کو جو جائز اور مستحب بتایا ہے تو یہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ نماز فجر وقت پر ادا کی جائے، اگر رات کو تعلیم و تعلم یا وعظ و تذکیر میں اتنا وقت صرف کر دیا جائے کہ فجر کے وقت اٹھا نہ جا سکے تو یہ جواز و استحباب بھی محل نظر ہو گا۔ (دیکھئیے اگلی حدیث اور اس کا حاشیہ)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (701)

Share this: