41: باب مَا جَاءَ فِي التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ
باب: سفر میں نفل پڑھنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 550
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث بن سعد، عن صفوان بن سليم، عن ابي بسرة الغفاري، عن البراء بن عازب، قال: " صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثمانية عشر شهرا فما رايته ترك الركعتين إذا زاغت الشمس قبل الظهر ". قال: وفي الباب عن ابن عمر. قال ابو عيسى: حديث البراء حديث غريب، قال: وسالت محمدا عنه فلم يعرفه إلا من حديث الليث بن سعد، ولم يعرف اسم ابي بسرة الغفاري ورآه حسنا، وروي عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " لا يتطوع في السفر قبل الصلاة ولا بعدها " وروي عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان " يتطوع في السفر " ثم اختلف اهل العلم بعد النبي صلى الله عليه وسلم، فراى بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ان يتطوع الرجل في السفر، وبه يقول: احمد، وإسحاق، ولم تر طائفة من اهل العلم ان يصلى قبلها ولا بعدها، ومعنى من لم يتطوع في السفر قبول الرخصة ومن تطوع فله في ذلك فضل كثير، وهو قول اكثر اهل العلم يختارون التطوع في السفر.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ مہینے رہا۔ لیکن میں نے سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے کی دونوں رکعتیں کبھی بھی آپ کو چھوڑتے نہیں دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- براء رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہ اسے صرف لیث بن سعد ہی کی روایت سے جان سکے اور وہ ابوبسرہ غفاری کا نام نہیں جان سکے اور انہوں نے اسے حسن جانا
۱؎،
۳- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۴- ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں نہ نماز سے پہلے نفل پڑھتے تھے اور نہ اس کے بعد
۲؎،
۵- اور ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے وہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سفر میں نفل پڑھتے تھے
۳؎،
۶- پھر نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اہل علم میں اختلاف ہو گیا، بعض صحابہ کرام کی رائے ہوئی کہ آدمی نفل پڑھے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،
۷- اہل علم کے ایک گروہ کی رائے نہ نماز سے پہلے کوئی نفل پڑھنے کی ہے اور نہ نماز کے بعد۔ سفر میں جو لوگ نفل نہیں پڑھتے ہیں ان کا مقصود رخصت کو قبول کرنا ہے اور جو نفل پڑھے تو اس کی بڑی فضیلت ہے۔ یہی اکثر اہل علم کا قول ہے وہ سفر میں نفل پڑھنے کو پسند کرتے ہیں
۴؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة 276 (1222) (تحفة الأشراف: 1924) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ ابوبُسرہ الغفاری ‘‘ لین الحدیث ہیں)
وضاحت:
۱؎: دیگر سارے لوگوں نے ان کو مجہول قرار دیا ہے، اور مجہول کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
۲؎ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔
۳؎: اس بابت سب سے صحیح اور واضح حدیث ابن عمر کی ہے، جو رقم ۵۴۴ پر گزری، ابن عمر رضی الله عنہما کی دلیل نقلی بھی ہے اور عقلی بھی کہ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما سنت راتبہ نہیں پڑھتے تھے، دوسرے اگر سنت راتبہ پڑھنی ہوتی تو اصل فرض میں کمی کرنے کا جو مقصد ہے وہ فوت ہو جاتا، اگر سنت راتبہ پڑھنی ہو تو فرائض میں کمی کا کیا معنی؟ رہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اسفار میں چاشت وغیرہ پڑھنے کی بات، تو بوقت فرصت عام نوافل کے سب قائل ہیں۔
۴؎: عام نوافل پڑھنے کے تو سب قائل ہیں مگر سنن راتبہ والی احادیث سنداً کمزور ہیں۔قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (222) // عندنا برقم (263 / 1222) //