احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

24: باب مَا جَاءَ فِي الصَّرْفِ
باب: صرف کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1241
حدثنا احمد بن منيع، اخبرنا حسين بن محمد، اخبرنا شيبان، عن يحيى بن ابي كثير، عن نافع، قال: انطلقت انا وابن عمر، إلى ابي سعيد فحدثنا، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال سمعته اذناي هاتان، يقول: " لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، والفضة بالفضة إلا مثلا بمثل، لا يشف بعضه على بعض، ولا تبيعوا منه غائبا بناجز ". قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابي بكر، وعمر، وعثمان، وابي هريرة، وهشام بن عامر، والبراء، وزيد بن ارقم، وفضالة بن عبيد، وابي بكرة، وابن عمر، وابي الدرداء، وبلال، قال: وحديث ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم في الربا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، إلا ما روي عن ابن عباس، انه كان لا يرى باسا ان يباع الذهب بالذهب متفاضلا، والفضة بالفضة متفاضلا، إذا كان يدا بيد، وقال: إنما الربا في النسيئة، وكذلك روي عن بعض اصحابه شيء من هذا، وقد روي عن ابن عباس، انه رجع عن قوله، حين حدثه ابو سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم والقول الاول اصح، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول: سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وروي عن ابن المبارك، انه قال: ليس في الصرف اختلاف.
نافع کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمر دونوں ابو سعید خدری رضی الله عنہم کے پاس آئے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے میرے دونوں کانوں نے آپ سے سنا): سونے کو سونے سے برابر برابر ہی بیچو اور چاندی کو چاندی سے برابر برابر ہی بیچو۔ ایک کو دوسرے سے کم و بیش نہ کیا جائے اور غیر موجود کو موجود سے نہ بیچو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- رباء کے سلسلہ میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان، ابوہریرہ، ہشام بن عامر، براء، زید بن ارقم، فضالہ بن عبید، ابوبکرہ، ابن عمر، ابودرداء اور بلال رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- مگر وہ جو ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ وہ سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے کمی بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، جب کہ بیع نقدا نقد ہو، اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ سود تو ادھار بیچنے میں ہے اور ایسا ہی کچھ ان کے بعض اصحاب سے بھی مروی ہے،
۵- اور ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ ابو سعید خدری نے جب ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، اور ابن مبارک کہتے ہیں: صرف ۱؎ میں اختلاف نہیں ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع 78 (2177)، صحیح مسلم/المساقاة 14 (البیوع 35)، (1584)، سنن النسائی/البیوع 47 (4574)، (تحفة الأشراف: 4385)، موطا امام مالک/البیوع 16 (30)، مسند احمد (3/4، 51، 61) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: سونے چاندی کو بعوض سونے چاندی نقداً بیچنا بیع صرف ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (5 / 189) ، أحاديث البيوع

Share this: