احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

23: باب مَا جَاءَ أَنَّ الْحِنْطَةَ بِالْحِنْطَةِ مِثْلاً بِمِثْلٍ وَكَرَاهِيَةِ التَّفَاضُلِ فِيهِ
باب: گیہوں کو گیہوں سے برابر برابر بیچنے اور اس کے اندر کمی و بیشی کے درست نہ ہونے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1240
حدثنا سويد بن نصر، حدثنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا سفيان، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن ابي الاشعث، عن عبادة بن الصامت، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الذهب بالذهب مثلا بمثل، والفضة بالفضة مثلا بمثل، والتمر بالتمر مثلا بمثل، والبر بالبر مثلا بمثل، والملح بالملح مثلا بمثل، والشعير بالشعير مثلا بمثل، فمن زاد او ازداد، فقد اربى بيعوا الذهب بالفضة، كيف شئتم يدا بيد، وبيعوا البر بالتمر كيف شئتم يدا بيد، وبيعوا الشعير بالتمر، كيف شئتم يدا بيد ". قال: وفي الباب، عن ابي سعيد، وابي هريرة، وبلال، وانس. قال ابو عيسى: حديث عبادة حديث حسن صحيح، وقد روى بعضهم هذا الحديث، عن خالد بهذا الإسناد، وقال: بيعوا البر بالشعير، كيف شئتم يدا بيد، وروى بعضهم هذا الحديث، عن خالد، عن ابي قلابة، عن ابي الاشعث، عن عبادة، عن النبي صلى الله عليه وسلم الحديث وزاد فيه، قال خالد: قال ابو قلابة: " بيعوا البر بالشعير كيف شئتم. فذكر الحديث، والعمل على هذا عند اهل العلم، لا يرون ان يباع البر بالبر إلا مثلا بمثل، والشعير بالشعير إلا مثلا بمثل، فإذا اختلف الاصناف فلا باس، ان يباع متفاضلا إذا كان يدا بيد "، وهذا قول اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول: سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قال الشافعي: والحجة في ذلك، قول النبي صلى الله عليه وسلم: " بيعوا الشعير بالبر كيف شئتم يدا بيد ". قال ابو عيسى: وقد كره قوم من اهل العلم ان تباع الحنطة بالشعير إلا مثلا بمثل، وهو قول: مالك بن انس، والقول الاول اصح.
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کو سونے سے، چاندی کو چاندی سے، کھجور کو کھجور سے، گیہوں کو گیہوں سے، نمک کو نمک سے اور جو کو جو سے برابر برابر بیچو، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا معاملہ کیا۔ سونے کو چاندی سے نقداً نقد، جیسے چاہو بیچو، گیہوں کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو، اور جو کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبادہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالد سے اسی سند سے روایت کیا ہے اس میں یہ ہے کہ گیہوں کو جو سے نقدا نقد جیسے چاہو بیچو،
۳- بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالد سے اور خالد نے ابوقلابہ سے اور ابوقلابہ نے ابوالاشعث سے اور ابوالاشعث نے عبادہ سے اور عبادہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے: خالد کہتے ہیں: ابوقلابہ نے کہا: گیہوں کو جو سے جیسے سے چاہو بیچو۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی،
۴- اس باب میں ابوسعید، ابوہریرہ، بلال اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۵- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ لوگ گیہوں کو گیہوں سے اور جو کو جو سے صرف برابر برابر ہی بیچنے کو جائز سمجھتے ہیں اور جب اجناس مختلف ہو جائیں تو کمی، بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ بیع نقداً نقد ہو۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا یہی قول ہے۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: اس کی دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ جو کو گیہوں سے نقدا نقد جیسے چاہو بیچو،
۶- اہل علم کی ایک جماعت نے جو سے بھی گیہوں کے بیچنے کو مکروہ سمجھا ہے، الا یہ کہ وزن میں مساوی ہوں، پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة 15 (البیوع 36)، (1587)، سنن ابی داود/ البیوع 12 (3349، 3350)، سنن النسائی/البیوع 44 (4567)، (تحفة الأشراف: 5089)، مسند احمد (5/314، 320) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/43 (4564، 4565)، سنن ابن ماجہ/التجارات 48 (2254)، من غیر ہذا الوجہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2254)

Share this: