احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

213: باب مَا جَاءَ فِي وَصْفِ صَلاَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 439
حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي سلمة انه اخبره، انه سال عائشة: كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل في رمضان ؟ فقالت: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي اربعا فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي اربعا فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا " فقالت عائشة: فقلت: يا رسول الله اتنام قبل ان توتر ؟ فقال: " يا عائشة إن عيني تنامان ولا ينام قلبي ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
ابوسلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کیسی ہوتی تھی؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد رمضان میں اور غیر رمضان گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۱؎، آپ (دو دو کر کے) چار رکعتیں اس حسن خوبی سے ادا فرماتے کہ ان کے حسن اور طوالت کو نہ پوچھو، پھر مزید چار رکعتیں (دو، دو کر کے) پڑھتے، ان کے حسن اور طوالت کو بھی نہ پوچھو ۲؎، پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ فرمایا: عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں، دل نہیں سوتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد 16 (1147)، والتراویح 1 (2013)، والمناقب 24 (3569)، صحیح مسلم/المسافر 17 (738)، سنن ابی داود/ الصلاة 316 (1341)، سنن الترمذی/الصلاة 209 (439)، سنن النسائی/قیام اللیل 36 (1698)، موطا امام مالک/ صلاة اللیل 2 (9)، مسند احمد (6/36، 73، 104) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت ہے، اور تہجد اور تراویح دونوں ایک ہی چیز ہے۔
۲؎: یہاں «نہی» ممانعت مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود نماز کی تعریف کرنا ہے۔
۳؎: دل نہیں سوتا کا مطلب ہے کہ آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا، کیونکہ دل بیدار رہتا تھا، یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو رات کے آخری حصہ میں اپنے اٹھ جانے کا یقین ہو اسے چاہیئے کہ وتر عشاء کے ساتھ نہ پڑھے، تہجد کے آخر میں پڑھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح صلاة التراويح، صحيح أبي داود (1212)

Share this: