احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

14: باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْقُرْآنِ
باب: قرآن کریم کی فضیلت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2906
حدثنا عبد بن حميد، حدثنا حسين بن علي الجعفي، قال: سمعت حمزة الزيات، عن ابي المختار الطائي، عن ابن اخي الحارث الاعور، عن الحارث، قال: مررت في المسجد فإذا الناس يخوضون في الاحاديث، فدخلت على علي، فقلت: يا امير المؤمنين، الا ترى ان الناس قد خاضوا في الاحاديث، قال: وقد فعلوها ؟، قلت: نعم، قال: اما إني قد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " الا إنها ستكون فتنة، فقلت: ما المخرج منها يا رسول الله ؟ قال: كتاب الله فيه نبا ما كان قبلكم، وخبر ما بعدكم، وحكم ما بينكم، وهو الفصل ليس بالهزل، من تركه من جبار قصمه الله، ومن ابتغى الهدى في غيره اضله الله، وهو حبل الله المتين، وهو الذكر الحكيم، وهو الصراط المستقيم، هو الذي لا تزيغ به الاهواء ولا تلتبس به الالسنة، ولا يشبع منه العلماء ولا يخلق على كثرة الرد، ولا تنقضي عجائبه، هو الذي لم تنته الجن إذ سمعته حتى قالوا: إنا سمعنا قرءانا عجبا { 1 } يهدي إلى الرشد سورة الجن آية 1 ـ 2، من قال به صدق، ومن عمل به اجر، ومن حكم به عدل، ومن دعا إليه هدى إلى صراط مستقيم " خذها إليك يا اعور، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وإسناده مجهول وفي الحارث مقال.
حارث اعور کہتے ہیں کہ مسجد میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ گپ شپ اور قصہ کہانیوں میں مشغول ہیں، میں علی رضی الله عنہ کے پاس پہنچا۔ میں نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ لوگ لایعنی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں؟۔ انہوں نے کہا: کیا واقعی وہ ایسا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: مگر میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: عنقریب کوئی فتنہ برپا ہو گا، میں نے کہا: اس فتنہ سے بچنے کی صورت کیا ہو گی؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے کے لوگوں اور قوموں کی خبریں ہیں اور بعد کے لوگوں کی بھی خبریں ہیں، اور تمہارے درمیان کے امور و معاملات کا حکم و فیصلہ بھی اس میں موجود ہے، اور وہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والا ہے، ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ جس نے اسے سرکشی سے چھوڑ دیا اللہ اسے توڑ دے گا اور جو اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ (قرآن) اللہ کی مضبوط رسی ہے یہ وہ حکمت بھرا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے، وہ ہے جس کی وجہ سے خواہشیں ادھر ادھر نہیں بھٹک پاتی ہیں، جس کی وجہ سے زبانیں نہیں لڑکھڑاتیں، اور علماء کو (خواہ کتنا ہی اسے پڑھیں) آسودگی نہیں ہوتی، اس کے باربار پڑھنے اور تکرار سے بھی وہ پرانا (اور بے مزہ) نہیں ہوتا۔ اور اس کی انوکھی (و قیمتی) باتیں ختم نہیں ہوتیں، اور وہ قرآن وہ ہے جسے سن کر جن خاموش نہ رہ سکے بلکہ پکار اٹھے: ہم نے ایک عجیب (انوکھا) قرآن سنا ہے جو بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے، تو ہم اس پر ایمان لے آئے، جو اس کے مطابق بولے گا اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجر و ثواب دیا جائے گا۔ اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا اس نے اس نے سیدھے راستے کی ہدایت دی۔ اعور! ان اچھی باتوں کا خیال رکھو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- اس کی سند مجہول ہے،
۳- حارث کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10057) (ضعیف) (سند میں حارث الأعور ضعیف راوی ہے، اور ابن أخی الحارث مجہول)

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (2138 / التحقيق الثاني)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(2906) إسناده ضعيف ¤ الحارث الأعور :ضعيف (تقدم:282)

Share this: