احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

28: باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الأَكْلِ مُتَّكِئًا
باب: ٹیک لگا کر کھانے کی کراہت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1830
حدثنا قتيبة، حدثنا شريك، عن علي بن الاقمر، عن ابي جحيفة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما انا فلا آكل متكئا "، قال: وفي الباب عن علي، وعبد الله بن عمرو، وعبد الله بن عباس، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح لا نعرفه إلا من حديث علي بن الاقمر وروى زكريا بن ابي زائدة، وسفيان بن سعيد الثوري وغير واحد عن علي بن الاقمر هذا الحديث، وروى شعبة، عن سفيان الثوري هذا الحديث، عن علي بن الاقمر.
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ہم اسے صرف علی بن اقمر کی روایت سے جانتے ہیں، علی بن اقمر سے اس حدیث کو زکریا بن ابی زائدہ، سفیان بن سعید ثوری اور کئی لوگوں نے روایت کیا ہے، شعبہ نے یہ حدیث سفیان ثوری سے علی بن اقمر کے واسطہ سے روایت کی ہے،
۳- اس باب میں علی، عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأطعمة 13 (5398)، سنن ابی داود/ الأطعمة 17 (3769)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 6 (3262)، (تحفة الأشراف: 11801)، و مسند احمد (4/308)، سنن الدارمی/الأطعمة 31 (2115) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: ٹیک لگانے کا کیا مطلب ہے؟ اس سلسلہ میں کئی باتیں کہی جاتی ہیں: (۱) کسی ایک جانب جھک کر کھانا جیسے دائیں یا بائیں ہاتھ یا کمنی پر ٹیک لگانا، (۲) زمین پر بچھے ہوئے گدے پر اطمینان و سہولت کی خاطر آلتی پالتی مار کر بیٹھنا تاکہ کھانا زیادہ کھایا جائے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح کے بیٹھنے کو ٹیک لگا کر بیٹھنا قرار دینا صحیح نہیں ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مستحب انداز بیٹھنے کا یہ ہے کہ پیروں کے تلوؤں پر گھٹنوں کے بل بیٹھے، یا دایاں پاؤں کھڑا رکھے اور بائیں پر بیٹھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3262)

Share this: