احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

2: باب مَا جَاءَ لاَ تَقَدَّمُوا الشَّهْرَ بِصَوْمٍ
باب: رمضان کے استقبال کی نیت سے ایک دو روز پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 684
حدثنا ابو كريب، حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تقدموا الشهر بيوم ولا بيومين إلا ان يوافق ذلك صوما كان يصومه احدكم، صوموا لرؤيته وافطروا لرؤيته، فإن غم عليكم فعدوا ثلاثين ثم افطروا ". روى منصور بن المعتمر، عن ربعي بن حراش، عن بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بنحو هذا، قال: وفي الباب عن بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم كرهوا ان يتعجل الرجل بصيام قبل دخول شهر رمضان لمعنى رمضان، وإن كان رجل يصوم صوما فوافق صيامه ذلك فلا باس به عندهم.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ماہ (رمضان) سے ایک یا دو دن پہلے (رمضان کے استقبال کی نیت سے) روزے نہ رکھو ۱؎، سوائے اس کے کہ اس دن ایسا روزہ آ پڑے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو ۲؎ اور (رمضان کا) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کرو۔ اگر آسمان ابر آلود ہو جائے تو مہینے کے تیس دن شمار کر لو، پھر روزہ رکھنا بند کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں بعض صحابہ کرام سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے۔ وہ اس بات کو مکروہ سمجھتے ہیں کہ آدمی ماہ رمضان کے آنے سے پہلے رمضان کے استقبال میں روزے رکھے، اور اگر کسی آدمی کا (کسی خاص دن میں) روزہ رکھنے کا معمول ہو اور وہ دن رمضان سے پہلے آ پڑے تو ان کے نزدیک اس دن روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15057) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 14 (1914)، صحیح مسلم/الصیام 3 (1082)، سنن ابی داود/ الصیام 11 (2335)، سنن النسائی/الصیام 31 (2174)، و38 (2189)، سنن ابن ماجہ/الصیام 5 (160)، مسند احمد (2/234، 347، 408، 438، 477، 497، 513)، سنن الدارمی/الصوم 4 (1731)، من غیر ہذا الطریق۔

وضاحت: ۱؎: اس ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ فرض روزے نفلی روزوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائیں اور کچھ لوگ انہیں فرض نہ سمجھ بیٹھیں، لہٰذا تحفظ حدود کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانبین سے روزہ منع کر دیا کیونکہ امم سابقہ میں اس قسم کے تغیر وتبدل ہوا کرتے تھے جس سے زیادتی فی الدین کی راہ کھلتی تھی، اس لیے اس سے منع کر دیا۔
۲؎: مثلاً پہلے سے جمعرات یا پیر یا ایام بیض کے روزے رکھنے کا معمول ہو اور یہ دن اتفاق سے رمضان سے دو یا ایک دن پہلے آ جائے تو اس کا روزہ رکھا جائے کہ یہ استقبال رمضان میں سے نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1650 و 1655)

Share this: