احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

3: باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ صَوْمِ يَوْمِ الشَّكِّ
باب: شک کے دن روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 686
حدثنا ابو سعيد عبد الله بن سعيد الاشج، حدثنا ابو خالد الاحمر، عن عمرو بن قيس الملائي، عن ابي إسحاق، عن صلة بن زفر، قال: كنا عند عمار بن ياسر فاتي بشاة مصلية، فقال: كلوا، فتنحى بعض القوم، فقال: إني صائم، فقال عمار:" من صام اليوم الذي يشك فيه الناس، فقد عصى ابا القاسم صلى الله عليه وسلم ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وانس. قال ابو عيسى: حديث عمار حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم من التابعين، وبه يقول سفيان الثوري، ومالك بن انس، وعبد الله بن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق: كرهوا ان يصوم الرجل اليوم الذي يشك فيه، وراى اكثرهم إن صامه فكان من شهر رمضان ان يقضي يوما مكانه.
صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم عمار بن یاسر رضی الله عنہ کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی تو انہوں نے کہا: کھاؤ۔ یہ سن کر ایک صاحب الگ گوشے میں ہو گئے اور کہا: میں روزے سے ہوں، اس پر عمار رضی الله عنہ نے کہا: جس نے کسی ایسے دن روزہ رکھا جس میں لوگوں کو شبہ ہو ۱؎ (کہ رمضان کا چاند ہوا ہے یا نہیں) اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمار رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہے،
۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہی سفیان ثوری، مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ان لوگوں نے اس دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے جس میں شبہ ہو، (کہ رمضان کا چاند ہوا ہے یا نہیں) اور ان میں سے اکثر کا خیال ہے کہ اگر وہ اس دن روزہ رکھے اور وہ ماہ رمضان کا دن ہو تو وہ اس کے بدلے ایک دن کی قضاء کرے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصیام 37 (2190)، سنن ابن ماجہ/الصیام 3 (1645)، (تحفة الأشراف: 10354)، سنن الدارمی/الصوم 1 (1724) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: جس میں شبہ ہو سے مراد ۳۰ شعبان کا دن ہے یعنی بادل کی وجہ سے ۲۹ویں دن چاند نظر نہیں آیا تو کوئی شخص یہ سمجھ کر روزہ رکھ لے کہ پتہ نہیں یہ شعبان کا تیسواں دن ہے یا رمضان کا پہلا دن، کہیں یہ رمضان ہی نہ ہو، اس طرح شک والے دن میں روزہ رکھنا صحیح نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1645)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(686) إسناده ضعيف /د 2334، ن 2190، جه 1645

Share this: