احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

24: باب مَا جَاءَ فِي حَدِّ اللُّوطِيِّ
باب: اغلام باز کی سزا کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1456
حدثنا محمد بن عمرو السواق , حدثنا عبد العزيز بن محمد , عن عمرو بن ابي عمرو , عن عكرمة , عن ابن عباس , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من وجدتموه يعمل عمل قوم لوط , فاقتلوا الفاعل , والمفعول به " , قال: وفي الباب , عن جابر , وابي هريرة , قال ابو عيسى: وإنما يعرف هذا الحديث عن ابن عباس , عن النبي صلى الله عليه وسلم من هذا الوجه , وروى محمد بن إسحاق هذا الحديث , عن عمرو بن ابي عمرو , فقال: ملعون من عمل عمل قوم لوط , ولم يذكر فيه القتل , وذكر فيه ملعون من اتى بهيمة , وقد روي هذا الحديث عن عاصم بن عمر , عن سهيل بن ابي صالح , عن ابيه , عن ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اقتلوا الفاعل والمفعول به " , قال ابو عيسى: هذا حديث في إسناده مقال , ولا نعرف احدا رواه عن سهيل بن ابي صالح , غير عاصم بن عمر العمري , وعاصم بن عمر يضعف في الحديث من قبل حفظه , واختلف اهل العلم في حد اللوطي , فراى بعضهم ان عليه الرجم احصن او لم يحصن , وهذا قول مالك , والشافعي , واحمد , وإسحاق , وقال بعض اهل العلم من فقهاء التابعين منهم الحسن البصري , وإبراهيم النخعي , وعطاء بن ابي رباح , وغيرهم قالوا: حد اللوطي حد الزاني , وهو قول الثوري , واهل الكوفة.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ جسے قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول (بدفعلی کرنے اور کرانے والے) دونوں کو قتل کر دو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث بواسطہ ابن عباس رضی الله عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے، محمد بن اسحاق نے بھی اس حدیث کو عمرو بن ابی عمرو سے روایت کیا ہے، (لیکن اس میں ہے) آپ نے فرمایا: قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کرنے والا ملعون ہے، راوی نے اس حدیث میں قتل کا ذکر نہیں کیا، البتہ اس میں یہ بیان ہے کہ جانور سے وطی (جماع) کرنے والا ملعون ہے، اور یہ حدیث بطریق: «عاصم بن عمر عن سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی گئی ہے۔ (اس میں ہے کہ) آپ نے فرمایا: فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو،
۲- اس حدیث کی سند میں کلام ہے، ہم نہیں جانتے کہ اسے سہیل بن ابی صالح سے عاصم بن عمر العمری کے علاوہ کسی اور نے روایت کیا ہے اور عاصم بن عمر کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،
۳- اس باب میں جابر اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اغلام بازی (بدفعلی) کرنے والے کی حد کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں: بدفعلی کرنے والا شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اس کی سزا رجم ہے، مالک شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۵- فقہاء تابعین میں سے بعض اہل علم نے جن میں حسن بصری، ابراہیم نخعی اور عطا بن ابی رباح وغیرہ شامل ہیں کہتے ہیں: بدفعلی کرنے والے کی سزا زانی کی سزا کی طرح ہے، ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحدود 29 (4462)، سنن ابن ماجہ/الحدود 13 (2561) (تحفة الأشراف: 6176)، و مسند احمد (1/269، 300) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس میں کوئی شک نہیں کہ اغلام بازی امور معصیت کے کاموں میں سے ہلاکت خیزی کے اعتبار سے سب سے خطرناک کام ہے اور فساد و بگاڑ کے اعتبار سے کفر کے بعد اسی کا درجہ ہے، اس کی تباہ کاری بسا اوقات قتل کی تباہ کاریوں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے، قوم لوط سے پہلے عالمی پیمانہ پر کوئی دوسری قوم اس فحش عمل میں ملوث نہیں پائی گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ یہ قوم مختلف قسم کے عذاب سے دوچار ہوئی، چنانچہ یہ اپنی رہائش گاہوں کے ساتھ پلٹ دی گئی اور زمین میں دھنسنے کے ساتھ آسمان سے نازل ہونے والے پتھروں کا شکار ہوئی، اسی لیے جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اس کی سزا زنا کی سزا سے کہیں سخت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3561)

Share this: