احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

10: باب مِنْهُ
باب:۔۔۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2942
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، قال: انبانا شعبة، عن منصور، قال: سمعت ابا وائل، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " بئسما لاحدهم او لاحدكم ان يقول: نسيت آية كيت وكيت بل هو نسي، فاستذكروا القرآن، فوالذي نفسي بيده لهو اشد تفصيا من صدور الرجال من النعم من عقله "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں سے یا تم میں سے کسی کے لیے یہ کہنا برا ہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا، بلکہ یہ کہو کہ وہ بھلا دیا گیا ۱؎ تم قرآن یاد کرتے دھراتے رہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! قرآن لوگوں کے سینوں سے نکل بھاگنے میں چوپایوں کے اپنی رسی سے نکل بھاگنے کی بہ نسبت زیادہ تیز ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/فضائل القرآن 23 (5032)، و 26 (5039)، صحیح مسلم/المسافرین 33 (790)، سنن النسائی/الافتتاح 37 (944) (تحفة الأشراف: 9295)، و مسند احمد (1/382، 417، 423، 463439)، وسنن الدارمی/فضائل القرآن 4 (3390)، والرقاق 32 (2787) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ ممانعت نہی تحریمی نہیں ہے، بلکہ نہی تنزیہی ہے یعنی: ایسا نہیں کہنا چاہیئے کیونکہ اس سے اپنی سستی اور قرآن سے غفلت کا خود ہی اظہار ہے، یا یہ مطلب ہے کہ ایسا موقع ہی نہ آنے دے کہ یہ بات کہنے کی نوبت آئے بعض روایات میں میں بھول گیا کہنا بھی ملتا ہے، اس لیے مذکورہ ممانعت نہی تنزیہی پر محمول کی گئی ہے۔ یعنی ایسا نہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔
۲؎: معلوم ہوا کہ قرآن کو باربار پڑھتے اور دہراتے رہنا چاہیئے، کیونکہ قرآن جس طرح جلد یاد ہوتا ہے اسی طرح جلد ذہن سے نکل جاتا ہے، اس لیے قرآن کوبار بار پڑھنا اور اس کا دہرانا ضروری ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الظلال (422)

Share this: