احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

38: باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْخُرُوجِ مِنَ الْمَسْجِدِ بَعْدَ الأَذَانِ
باب: اذان کے بعد مسجد سے باہر نکلنے کی کراہت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 204
حدثنا حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن إبراهيم بن المهاجر، عن ابي الشعثاء، قال: خرج رجل من المسجد بعد ما اذن فيه بالعصر، فقال ابو هريرة: اما هذا فقد عصى ابا القاسم صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: وفي الباب عن عثمان. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حسن صحيح، وعلى هذا العمل عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ومن بعدهم ان لا يخرج احد من المسجد بعد الاذان إلا من عذر ان يكون على غير وضوء او امر لا بد منه، ويروى عن إبراهيم النخعي، انه قال: يخرج ما لم ياخذ المؤذن في الإقامة. قال ابو عيسى: وهذا عندنا لمن له عذر في الخروج منه، وابو الشعثاء اسمه: سليم بن اسود وهو والد اشعث بن ابي الشعثاء، وقد روى اشعث بن ابي الشعثاء هذا الحديث عن ابيه.
ابوالشعثاء سلیم بن اسود کہتے ہیں کہ ایک شخص عصر کی اذان ہو چکنے کے بعد مسجد سے نکلا تو ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: رہا یہ تو اس نے ابوالقاسم صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی روایت حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عثمان رضی الله عنہ سے بھی حدیث ہے،
۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ اذان ہو جانے کے بعد بغیر کسی عذر کے مثلاً بے وضو ہو یا کوئی ناگزیر ضرورت آ پڑی ہو جس کے بغیر چارہ نہ ہو کوئی مسجد سے نہ نکلے ۱؎،
۴- ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ جب تک مؤذن اقامت شروع نہیں کرتا وہ باہر نکل سکتا ہے،
۵- ہمارے نزدیک یہ اس شخص کے لیے ہے جس کے پاس نکلنے کے لیے کوئی عذر موجود ہو۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد 35 (655)، سنن ابی داود/ الصلاة 43 (536)، سنن النسائی/الأذان 40 (685)، سنن ابن ماجہ/الأذان 7 (733)، (تحفة الأشراف: 13477)، مسند احمد (2/410، 416، 417، 506، 537)، سنن الدارمی/الصلاة 12 (1241) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎: ایک عذر یہ بھی ہے کہ آدمی کسی دوسری مسجد کا امام ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (733)

Share this: