احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

119: باب
باب
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3578
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عثمان بن عمر، حدثنا شعبة، عن ابي جعفر، عن عمارة بن خزيمة بن ثابت، عن عثمان بن حنيف، ان رجلا ضرير البصر اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ادع الله ان يعافيني، قال: " إن شئت دعوت وإن شئت صبرت فهو خير لك "، قال: فادعه، قال: فامره ان يتوضا فيحسن وضوءه ويدعو بهذا الدعاء: " اللهم إني اسالك واتوجه إليك بنبيك، محمد نبي الرحمة، إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي، اللهم فشفعه في ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث ابي جعفر وهو الخطمي , وعثمان بن حنيف هو اخو سهل بن حنيف.
عثمان بن حنیف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: آپ دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے عافیت دے، آپ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اگر چاہو تو صبر کیے رہو، کیونکہ یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر (و سود مند) ہے۔ اس نے کہا: دعا ہی کر دیجئیے، تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ وضو کرے، اور اچھی طرح سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھ کر دعا کرے: «اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي اللهم فشفعه» اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی محمد جو نبی رحمت ہیں کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، میں نے آپ کے واسطہ سے اپنی اس ضرورت میں اپنے رب کی طرف توجہ کی ہے تاکہ تو اے اللہ! میری یہ ضرورت پوری کر دے تو اے اللہ تو میرے بارے میں ان کی شفاعت قبول کر ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں یعنی ابو جعفر کی روایت سے،
۲- اور ابوجعفر خطمی ہیں
۳- اور عثمان بن حنیف یہ سہل بن حنیف کے بھائی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة 189 (1385) (تحفة الأشراف: 9760) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہی وہ مشہور روایت ہے جس سے انبیاء اور اولیاء کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے، بعض محدثین نے تو اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے، اور جو لوگ اس کو صحیح قرار دیتے ہیں، ان میں سے سلفی منہج و فکر کے علماء (جیسے امام ابن تیمیہ و علامہ البانی نے اس کی توجیہ کی ہے کہ نابینا کو اپنی ذات بابرکات سے وسیلہ پکڑنے کا مشورہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا تھا، بلکہ آپ کی دعا کو قبول کرنے کی دعا اس نے کی، اور اب آپ کی وفات کے بعد ایسا نہیں ہو سکتا، اسی لیے عمر رضی الله عنہ نے قحط پڑنے پر آپ کی قبر شریف کے پاس آ کر آپ سے دعا کی درخواست نہیں کی، (آپ کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کی بات تو دور کی ہے) بلکہ انہوں نے آپ کے زندہ چچا عباس رضی الله عنہ سے دعا کرائی، اور تمام صحابہ نے اس پر ہاں کیا، تو گویا یہ بات تمام صحابہ کے اجماع سے ہوئی، کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ کیوں نہ نابینا کی طرح آپ سے دعا کی درخواست کی جائے، اور اس دعا یا آپ کی ذات کو وسیلہ بنایا جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1385)

Share this: