احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

95: باب
باب: صبح و شام کے ذکر سے متعلق ایک اور باب۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3529
حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا إسماعيل بن عياش، عن محمد بن زياد، عن ابي راشد الحبراني، قال: اتيت عبد الله بن عمرو بن العاص فقلت له: حدثنا مما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فالقى إلي صحيفة، فقال: هذا ما كتب لي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فنظرت فإذا فيها: إن ابا بكر الصديق رضي الله عنه، قال: يا رسول الله، علمني ما اقول إذا اصبحت وإذا امسيت، فقال: " يا ابا بكر، قل اللهم فاطر السموات والارض، عالم الغيب والشهادة، لا إله إلا انت رب كل شيء ومليكه، اعوذ بك من شر نفسي ومن شر الشيطان وشركه، وان اقترف على نفسي سوءا او اجره إلى مسلم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.
ابوراشد حبرانی کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کے پاس آیا اور ان سے کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیثیں سن رکھی ہیں ان میں سے کوئی حدیث ہمیں سنائیے، تو انہوں نے ایک لکھا ہوا ورق ہمارے آگے بڑھا دیا، اور کہا: یہ وہ کاغذ ہے جسے رسول اللہ نے ہمیں لکھ کر دیا ہے ۱؎، جب میں نے اسے دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیجئیے جسے میں صبح اور شام میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا: ابوبکر! (یہ دعا) پڑھا کرو: «اللهم فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة لا إله إلا أنت رب كل شيء ومليكه أعوذ بك من شر نفسي ومن شر الشيطان وشركه وأن أقترف على نفسي سوءا أو أجره إلى مسلم» اے اللہ! آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے، کھلی ہوئی اور پوشیدہ چیزوں کے جاننے والے، کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے تیرے، تو ہر چیز کا رب (پالنے والا) اور اس کا بادشاہ ہے، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے نفس کے شر سے، شیطان کے شر اور اس کے جال اور پھندوں سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اپنے آپ کے خلاف کوئی گناہ کر بیٹھوں، یا اس گناہ میں کسی مسلمان کو ملوث کر دوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8958) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس صحیح الإسناد و المتن حدیث سے بھی نہایت واضح معلوم ہو رہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ و طاہرہ میں آپ کی احادیث مبارکہ کو صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین لکھ لیا کرتے تھے اور اس عظیم المرتبت عمل کے لیے راوی حدیث عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما بہت معروف تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الكلم الطيب (22 / 9) ، الصحيحة (2763)

Share this: