احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: باب مَا جَاءَ فِي حُرْمَةِ مَكَّة
باب: مکہ کی حرمت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 809
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي شريح العدوي، انه قال لعمرو بن سعيد وهو يبعث البعوث إلى مكة: ائذن لي ايها الامير احدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم الغد من يوم الفتح سمعته اذناي ووعاه قلبي وابصرته عيناي حين تكلم به انه حمد الله واثنى عليه، ثم قال: " إن مكة حرمها الله ولم يحرمها الناس، ولا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر ان يسفك فيها دما او يعضد بها شجرة، فإن احد ترخص بقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها، فقولوا له: إن الله اذن لرسوله صلى الله عليه وسلم ولم ياذن لك، وإنما اذن لي فيه ساعة من النهار، وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالامس وليبلغ الشاهد الغائب ". فقيل لابي شريح: ما قال لك عمرو ؟ قال: انا اعلم منك بذلك يا ابا شريح إن الحرم لا يعيذ عاصيا ولا فارا بدم ولا فارا بخربة. قال ابو عيسى: ويروى ولا فارا بخزية، قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وابن عباس. قال ابو عيسى: حديث ابي شريح حديث حسن صحيح، وابو شريح الخزاعي اسمه خويلد بن عمرو وهو العدوي وهو الكعبي، ومعنى قوله: ولا فارا بخربة يعني الجناية، يقول: من جنى جناية او اصاب دما ثم لجا إلى الحرم، فإنه يقام عليه الحد.
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید ۲؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے) لشکر روانہ کر رہے تھے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: مکہ (میں جنگ و جدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، یہ جائز نہیں کہ وہ اس میں خون بہائے، یا اس کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کو دلیل بنا کر (قتال کا) جواز نکالے تو اس سے کہو: اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اجازت دی تھی، تمہیں نہیں دی ہے۔ تو مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے آج اجازت تھی، آج اس کی حرمت ویسے ہی لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ جو لوگ موجود ہیں وہ یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں، ابوشریح سے پوچھا گیا: اس پر عمرو بن سعید نے آپ سے کیا کہا؟ کہا: اس نے مجھ سے کہا: ابوشریح! میں یہ بات آپ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں، حرم مکہ کسی نافرمان (یعنی باغی) کو پناہ نہیں دیتا اور نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو اور نہ چوری کر کے بھاگنے والے کو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوشریح رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوشریح خزاعی کا نام خویلد بن عمرو ہے۔ اور یہی عدوی اور کعبی یہی ہیں،
۳- اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- «ولا فارا بخربة» کی بجائے «ولا فارا بخزية» زائے منقوطہٰ اور یاء کے ساتھ بھی مروی ہے، ۵- اور «ولا فارا بخربة» میں «خربہ» کے معنی گناہ اور جرم کے ہیں یعنی جس نے کوئی جرم کیا یا خون کیا پھر حرم میں پناہ لی تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم 37 (104)، وجزاء الصید 8 (1832)، والمغازي 51 (4295)، صحیح مسلم/الحج 82 (1354)، سنن النسائی/الحج 111 (2879)، (تحفة الأشراف: 12057)، مسند احمد (4/31)، ویأتي عند المؤلف في الدیات (برقم: 1406)، و مسند احمد (6/385) من غیر ہذا الطریق (صحیح)

وضاحت: ۱؎: حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت ۵ھ یا ۶ھ میں ہوئی اور بعض نے ۹ھ یا ۱۰ھ کہا ہے، زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔
۲؎: عمرو بن سعید: یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: