احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

71: باب مِنْهُ
باب: سمندر کی موج کی طرح کے فتنے کا ذکر۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2258
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، انبانا شعبة، عن الاعمش، وحماد، وعاصم بن بهدلة، سمعوا ابا وائل، عن حذيفة، قال: قال عمر: ايكم يحفظ ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتنة ؟ فقال حذيفة: انا، قال حذيفة: " فتنة الرجل في اهله وماله وولده وجاره يكفرها الصلاة والصوم والصدقة والامر بالمعروف والنهي عن المنكر "، فقال عمر: لست عن هذا اسالك، ولكن عن الفتنة التي تموج كموج البحر، قال: يا امير المؤمنين: إن بينك وبينها بابا مغلقا، قال عمر: ايفتح ام يكسر ؟ قال: بل يكسر، قال: إذا لا يغلق إلى يوم القيامة، قال ابو وائل في حديث حماد: فقلت لمسروق: سل حذيفة عن الباب، فساله، فقال عمر: قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح.
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کے بارے میں جو فرمایا ہے اسے کس نے یاد رکھا ہے؟ حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: میں نے یاد رکھا ہے، حذیفہ رضی الله عنہ نے بیان کیا: آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل، مال، اولاد اور پڑوسی کے سلسلے میں ہو گا اسے نماز، روزہ، زکاۃ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں ۱؎، عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں تم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہا ہوں، بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو سمندر کی موجوں کی طرح موجیں مارے گا، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے، عمر نے پوچھا: کیا وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑ دیا جائے گا؟ انہوں نے کہا: توڑ دیا جائے گا، عمر رضی الله عنہ نے کہا: تب تو قیامت تک بند نہیں ہو گا۔ حماد کی روایت میں ہے کہ ابووائل شقیق بن سلمہ نے کہا: میں نے مسروق سے کہا کہ حذیفہ سے اس دروازہ کے بارے میں پوچھو انہوں نے پوچھا تو کہا: وہ دروازہ عمر ہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المواقیت 4 (525)، والزکاة 23 (1435)، والصوم 3 (1895)، والمناقب 25 (3586)، والفتن 17 (7096)، صحیح مسلم/الإیمان 65 (144)، والفتن 7 (144/26)، سنن ابن ماجہ/الفتن 9 (3555) (تحفة الأشراف: 3337)، و مسند احمد (5/386 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ گھر کی ذمہ داری سنبھالنے والے سے اس کے اہل، مال، اولاد اور پڑوسی کے سلسلہ میں ادائے حقوق کے ناحیہ سے جو کوتاہیاں ہو جاتی ہیں تو نماز، روزہ، صدقہ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر وغیرہ یہ سب کے سب ان کے لیے کفارہ بنتے ہیں۔
۲؎: حذیفہ رضی الله عنہ نے جو کچھ بیان کیا عمر رضی الله عنہ کی شہادت کے بعد حقیقت میں اسی طرح پیش آیا، یعنی فتنوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا، اور امن وامان نام کی کوئی چیز دنیا میں باقی نہیں رہی، چنانچہ ہر کوئی سکون و اطمینان کا متلاشی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3555)

Share this: