احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

66: باب وَمِنْ سُورَةِ ن
باب: سورۃ نٓ والقلم سے بعض آیات کی تفسیر۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3319
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا عبد الواحد بن سليم، قال: قدمت مكة فلقيت عطاء بن ابي رباح، فقلت له: يا ابا محمد إن اناسا عندنا يقولون في القدر، فقال عطاء: لقيت الوليد بن عبادة بن الصامت قال: حدثني ابي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن اول ما خلق الله القلم، فقال له: اكتب، فجرى بما هو كائن إلى الابد، وفي الحديث قصة، قال: هذا حديث حسن صحيح غريب، وفيه عن ابن عباس.
عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں کہ میں مکہ آیا، عطاء بن ابی رباح سے میری ملاقات ہوئی، میں نے ان سے کہا: ابو محمد! ہمارے یہاں کچھ لوگ تقدیر کا انکار کرتے ہیں، عطا نے کہا: میں ولید بن عبادہ بن صامت سے ملا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے: سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا (بنایا) پھر اس سے کہا: لکھ، تو وہ چل پڑا، اور ہمیشہ ہمیش تک جو کچھ ہونے والا تھا سب اس نے لکھ ڈالا ۱؎۔ اس حدیث میں ایک قصہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، اور اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم 2155 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اور یہی تقدیر ہے، تو پھر تقدیر کا انکار کیوں؟ تقدیر رزق کے بارے میں ہو، یا انسانی عمل کے بارے میں اللہ نے سب کو روز ازل میں لکھ رکھا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ رزق کے سلسلے میں اس نے اپنے اختیار سے لکھا ہے، اور عمل کے سلسلے میں اس نے اپنے علم غیب کی بنا پر انسان کے آئندہ عمل کے بارے میں جو جان لیا اس کو لکھا ہے اس سلسلے میں جبر نہیں کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ومضى برقم (2258) وفيه القصة

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(3319) إسناده ضعيف / تقدم:2155

Share this: