احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

25: باب مَا جَاءَ فِيمَنِ اسْتَقَاءَ عَمْدًا
باب: جان بوجھ کر قے کر دینے والے کے حکم کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 720
حدثنا علي بن حجر، حدثنا عيسى بن يونس، عن هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من ذرعه القيء فليس عليه قضاء، ومن استقاء عمدا فليقض ". قال: وفي الباب عن ابي الدرداء، وثوبان، وفضالة بن عبيد. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن غريب، لا نعرفه من حديث هشام، عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، إلا من حديث عيسى بن يونس، وقال محمد: لا اراه محفوظا. قال ابو عيسى: وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولا يصح إسناده، وقد روي عن ابي الدرداء، وثوبان، وفضالة بن عبيد، ان النبي صلى الله عليه وسلم " قاء فافطر " وإنما معنى هذا ان النبي صلى الله عليه وسلم كان صائما متطوعا، فقاء فضعف فافطر، لذلك هكذا روي في بعض الحديث مفسرا، والعمل عند اهل العلم على حديث ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " ان الصائم إذا ذرعه القيء فلا قضاء عليه، وإذا استقاء عمدا فليقض " وبه يقول سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے قے آ جائے اس پر روزے کی قضاء لازم نہیں ۱؎ اور جو جان بوجھ کر قے کرے تو اسے روزے کی قضاء کرنی چاہیئے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم اسے بسند «هشام عن ابن سيرين عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» عیسیٰ بن یونس ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں اسے محفوظ نہیں سمجھتا،
۲- یہ حدیث دوسری اور سندوں سے بھی ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے،
۳- اس باب میں ابو الدرداء، ثوبان اور فضالہ بن عبید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- ابو الدرداء، ثوبان اور فضالہ بن عبید رضی الله عنہم سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قے کی تو آپ نے روزہ توڑ دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے سے تھے۔ قے ہوئی تو آپ نے کچھ کمزوری محسوس کی اس لیے روزہ توڑ دیا، بعض روایات میں اس کی تفسیر اسی طرح مروی ہے،
۵- اور اہل علم کا عمل ابوہریرہ کی حدیث پر ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ روزہ دار کو جب قے آ جائے تو اس پر قضاء لازم نہیں ہے۔ اور جب قے جان بوجھ کر کرے تو اسے چاہیئے کہ قضاء کرے۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصیام 32 (2380)، سنن ابن ماجہ/الصیام 16 (1676)، (تحفة الأشراف: 14542)، مسند احمد (2/498)، سنن الدارمی/الصوم 25 (1770) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: کیونکہ اس میں روزہ دارکی کوئی غلطی نہیں۔
۲؎: اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ اس میں کفارہ نہیں صرف قضاء ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1676)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(720) إسناده ضعيف / د 2380، جه 1676

Share this: