احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

44: باب مَا جَاءَ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ
باب: قبیلہ بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک ہلاک کرنے والا ہو گا۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2220
حدثنا علي بن حجر، حدثنا الفضل بن موسى، عن شريك بن عبد الله، عن عبد الله بن عصم، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " في ثقيف كذاب ومبير "، قال ابو عيسى: يقال الكذاب: المختار بن ابي عبيد، والمبير: الحجاج بن يوسف،
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ہلاک کرنے والا ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
کہا جاتا ہے کذاب اور جھوٹے سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی اور ہلاک کرنے والا سے مراد حجاج بن یوسف ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في المناقب 74 (3944) (تحفة الأشراف: 7283) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مختار بن ابوعبید بن مسعود ثقفی کی شہرت اس وقت ہوئی جب اس نے حادثہ حسین کے بعد ان کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان محض اس غرض سے کیا کہ لوگوں کو اپنی جانب مائل کر سکے، اور امارت (حکومت) کے حصول کا راستہ آسان بنا سکے، علم و فضل میں پہلے یہ بہت مشہور تھا، آگے چل کر اس نے اپنی شیطنت کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ اس کے عقیدے اور دین کا بگاڑ لوگوں پر واضح ہو گیا، یہ امارت اور دنیا کا طالب تھا، بالآخر ۶۷ ھ میں مصعب بن زبیر رضی الله عنہ کے زمانے میں مارا گیا۔ حجاج بن یوسف ثقفی اپنے ظلم، قتل، اور خون ریزی میں ضرب المثل ہے، یہ عبدالملک بن مروان کا گورنر تھا، عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کا اندوہناک حادثہ اسی کے ہاتھ پیش آیا۔ مقام واسط پر ۷۵ ھ میں اس کا انتقال ہوا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

سنن ترمذي حدیث نمبر: 2220M
حدثنا ابو داود سليمان بن سلم البلخي، اخبرنا النضر بن شميل، عن هشام بن حسان، قال: احصوا ما قتل الحجاج صبرا، فبلغ مائة الف وعشرين الف قتيل. قال ابو عيسى: وفي الباب عن اسماء بنت ابي بكر.
اس سند سے ہشام بن حسان سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حجاج نے جن لوگوں کو باندھ کر قتل کیا تھا انہیں شمار کیا گیا تو ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں اسماء بنت ابوبکر رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 19508) (صحیح الإسناد)

قال الشيخ الألباني: صحيح

سنن ترمذي حدیث نمبر: 2220M
حدثنا عبد الرحمن بن واقد، حدثنا شريك نحوه بهذا الإسناد، وهذا حديث حسن غريب، من حديث ابن عمر، لا نعرفه إلا من حديث شريك، وشريك، يقول: عبد الله بن عصم، وإسرائيل، يقول: عبد الله بن عصمة.
اس سند سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اور یہ حدیث ابن عمر رضی الله عنہما کی روایت سے حسن غریب ہے۔ شریک نے اپنے استاذ کا نام عبداللہ بن عصم بیان کیا ہے، جب کہ اسرائیل نے عبداللہ بن عصمہ بیان کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر رقم 2220 (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: