احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

26: باب مَا جَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ
باب: حضر (اقامت کی حالت) میں دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 187
حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن حبيب بن ابي ثابت، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: " جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الظهر والعصر، وبين المغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر ". قال: فقيل لابن عباس: ما اراد بذلك ؟ قال: اراد ان لا يحرج امته. وفي الباب عن ابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس قد روي عنه من غير وجه، رواه جابر بن زيد , وسعيد بن جبير , وعبد الله بن شقيق العقيلي، وقد روي عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم غير هذا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر خوف اور بارش ۱؎ کے مدینے میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کیا ۲؎۔ ابن عباس رضی الله عنہما سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے کیا منشأ تھی؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشأ یہ تھی کہ آپ اپنی امت کو کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۲- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے، ابن عباس رضی الله عنہما سے اس کے خلاف بھی مرفوعاً مروی ہے ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المواقیت 12 (543)، (بدون قولہ ’’ فی غیر خوف ولا مطر ‘‘)، صحیح مسلم/المسافرین 6 (705، 706)، (وعندہ في روایة ’’ ولاسفر ‘‘)، سنن ابی داود/ الصلاة 274 (1210، 1211)، سنن النسائی/المواقیت 44 (590)، (تحفة الأشراف: 5474)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 1 (4)، مسند احمد (1/221، 223، 283) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: ابوداؤد کی روایت میں «في غير خوف ولا سفر» ہے، نیز مسلم کی ایک روایت میں بھی ایسا ہی ہے، خوف، سفر اور مطر (بارش) تینوں کا ذکر ایک ساتھ کسی روایت میں نہیں ہے مشہور «من غير خوف ولا سفر» ہے۔
۲؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا بوقت ضرورت حالت قیام میں بھی جائز ہے، لیکن اسے عادت نہیں بنا لینی چاہیئے۔
۳؎: جسے امام ترمذی آگے نقل کر رہے ہیں، لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے، اس لیے دونوں حدیثوں میں تعارض ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اور نہ اس حدیث سے استدلال جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (579 / 1) ، صحيح أبي داود (1096)

Share this: