احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: باب مَا جَاءَ فِي الدِّيَةِ كَمْ هِيَ مِنَ الإِبِلِ
باب: دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی تعداد کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1386
حدثنا علي بن سعيد الكندي الكوفي , اخبرنا ابن ابي زائدة , عن الحجاج , عن زيد بن جبير , وعن خشف بن مالك , قال: سمعت ابن مسعود , قال: " قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في دية الخطإ عشرين بنت مخاض , وعشرين بني مخاض ذكورا , وعشرين بنت لبون , وعشرين جذعة , وعشرين حقة ". قال: وفي الباب , عن عبد الله بن عمرو , اخبرنا ابو هشام الرفاعي , اخبرنا ابن ابي زائدة , وابو خالد الاحمر , عن الحجاج بن ارطاة نحوه. قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود لا نعرفه مرفوعا , إلا من هذا الوجه , وقد روي عن عبد الله موقوفا , وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا , وهو قول: احمد , وإسحاق , وقد اجمع اهل العلم على ان الدية تؤخذ في ثلاث سنين , في كل سنة ثلث الدية , وراوا ان دية الخطإ على العاقلة , وراى بعضهم ان العاقلة قرابة الرجل من قبل ابيه , وهو قول: مالك , والشافعي , وقال بعضهم: إنما الدية على الرجال دون النساء والصبيان من العصبة , يحمل كل رجل منهم ربع دينار , وقد قال بعضهم: إلى نصف دينار , فإن تمت الدية , وإلا نظر إلى اقرب القبائل منهم فالزموا ذلك.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: قتل خطا ۱؎ کی دیت ۲؎ بیس بنت مخاض ۳؎، بیس ابن مخاض، بیس بنت لبون ۴؎، بیس جذعہ ۵؎ اور بیس حقہ ۶؎ ہے۔ ہم کو ابوہشام رفاعی نے ابن ابی زائدہ اور ابوخالد احمر سے اور انہوں نے حجاج بن ارطاۃ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں اور عبداللہ بن مسعود سے یہ حدیث موقوف طریقہ سے بھی آئی ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،
۴- اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دیت تین سال میں لی جائے گی، ہر سال دیت کا تہائی حصہ لیا جائے گا،
۵- اور ان کا خیال ہے کہ دیت خطا عصبہ پر ہے،
۶- بعض لوگوں کے نزدیک عصبہ وہ ہیں جو باپ کی جانب سے آدمی کے قرابت دار ہوں، مالک اور شافعی کا یہی قول ہے،
۷- بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عصبہ میں سے جو مرد ہیں انہی پر دیت ہے، عورتوں اور بچوں پر نہیں، ان میں سے ہر آدمی کو چوتھائی دینار کا مکلف بنایا جائے گا،
۸- کچھ لوگ کہتے ہیں: آدھے دینار کا مکلف بنایا جائے گا،
۹- اگر دیت مکمل ہو جائے گی تو ٹھیک ہے ورنہ سب سے قریبی قبیلہ کو دیکھا جائے گا اور ان کو اس کا مکلف بنایا جائے گا۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الدیات 18 (4545)، سنن النسائی/القسامة 34 (4806)، سنن ابن ماجہ/الدیات 6 (2631)، (تحفة الأشراف: 198)، و مسند احمد (1/450) (ضعیف) (سند میں حجاج بن ارطاة مدلس اور کثیر الوہم ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز خشف بن مالک کی ثقاہت میں بھی بہت کلام ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم: 4020)

وضاحت: ۱؎: قتل کی تین قسمیں ہیں: ۱- قتل عمد: یعنی جان بوجھ کر ایسے ہتھیار کا استعمال کرنا جن سے عام طور سے قتل واقع ہوتا ہے، اس میں قاتل سے قصاص لیا جاتا ہے، ۲- قتل خطا،: یعنی غلطی سے قتل کا ہو جانا، اوپر کی حدیث میں اسی قتل کی دیت بیان ہوئی ہے۔ ۳- قتل شبہ عمد: یہ وہ قتل ہے جس میں ایسی چیزوں کا استعمال ہوتا ہے جن سے عام طور سے قتل واقع نہیں ہوتا جیسے لاٹھی اور کوڑا وغیرہ، اس میں دیت مغلظہ لی جاتی ہے اور یہ سو اونٹ ہے ان میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی۔
۲؎: کسی نفس کے قتل یا جسم کے کسی عضو کے ضائع کرنے کے بدلے میں جو مال دیا جاتا ہے اسے دیت کہتے ہیں۔
۳؎: وہ اونٹنی جو ایک سال کی ہو چکی ہو ۴؎، وہ اونٹنی جو دو سال کی ہو چکی ہو۔ ۵؎؎ وہ اونٹ جو چار سال کی ہو چکا ہو ۶؎؎، وہ اونٹ جو تین سال کا ہو چکا ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2631)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(1386) إسناده ضعيف / د 4545، ن 4806، جه 2631

Share this: