احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

45: باب وَمِنْ سُورَةِ الدُّخَانِ
باب: سورۃ الدخان سے بعض آیات کی تفسیر۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3254
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الملك بن إبراهيم الجدي، حدثنا شعبة، عن الاعمش، ومنصور، سمعا ابا الضحى يحدث، عن مسروق، قال: جاء رجل إلى عبد الله، فقال: إن قاصا يقص، يقول: إنه يخرج من الارض الدخان فياخذ بمسامع الكفار، وياخذ المؤمن كهيئة الزكام، قال: فغضب وكان متكئا فجلس، ثم قال: إذا سئل احدكم عما يعلم فليقل به، قال منصور: فليخبر به، وإذا سئل عما لا يعلم فليقل الله اعلم، فإن من علم الرجل إذا سئل عما لا يعلم ان يقول: الله اعلم، فإن الله تعالى قال لنبيه: قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما راى قريشا استعصوا عليه، قال: " اللهم اعني عليهم بسبع كسبع يوسف "، فاخذتهم سنة، فاحصت كل شيء حتى اكلوا الجلود والميتة وقال احدهما: العظام، قال: وجعل يخرج من الارض كهيئة الدخان، قال: فاتاه ابو سفيان، قال: إن قومك قد هلكوا فادع الله لهم، قال: فهذا لقوله: يوم تاتي السماء بدخان مبين { 10 } يغشى الناس هذا عذاب اليم { 11 } سورة الدخان آية 10-11، قال منصور: هذا لقوله:ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون سورة الدخان آية 12، فهل يكشف عذاب الآخرة، قال: مضى البطشة واللزام والدخان، وقال احدهما: القمر، وقال الآخر: الروم ". قال ابو عيسى: واللزام يعني يوم بدر، قال: وهذا حديث حسن صحيح.
مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: ایک قصہ گو (واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا، جس سے کافروں کے کان بند ہو جائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہو جائے گا۔ مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہو گئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے، (سنبھل کر) بیٹھ گئے۔ پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو تو اسے بتانی چاہیئے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے «اللہ اعلم» اللہ بہتر جانتا ہے کہنا چاہیئے، کیونکہ یہ آدمی کے علم و جانکاری ہی کی بات ہے کہ جب اس سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو وہ کہہ دے «اللہ اعلم» اللہ بہتر جانتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا: «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» کہہ دو میں تم سے اس کام پر کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، اور میں خود سے باتیں بنانے والا بھی نہیں ہوں (ص: ۸۶)، (بات اس دخان کی یہ ہے کہ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو دیکھا کہ وہ نافرمانی ہی کیے جا رہے ہیں تو آپ نے فرمایا: اے اللہ! یوسف علیہ السلام کے سات سالہ قحط کی طرح ان پر سات سالہ قحط بھیج کر ہماری مدد کر (آپ کی دعا قبول ہو گئی)، ان پر قحط پڑ گیا، ہر چیز اس سے متاثر ہو گئی، لوگ چمڑے اور مردار کھانے لگے (اس حدیث کے دونوں راویوں اعمش و منصور میں سے ایک نے کہا ہڈیاں بھی کھانے لگے)، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: دھواں جیسی چیز زمین سے نکلنے لگی، تو ابوسفیان نے آپ کے پاس آ کر کہا: آپ کی قوم ہلاک و برباد ہو گئی، آپ ان کی خاطر اللہ سے دعا فرما دیجئیے عبداللہ نے کہا: یہی مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «يوم تأتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب أليم» جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا یہ (دھواں) لوگوں کو ڈھانپ لے گا، یہ بڑا تکلیف دہ عذاب ہے (الدخان: ۱۰)، کا، منصور کہتے ہیں: یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون» اے ہمارے رب! ہم سے عذاب کو ٹال دے ہم ایمان لانے والے ہیں (الدخان: ۱۲)، کا، تو کیا آخرت کا عذاب ٹالا جا سکے گا؟۔ عبداللہ کہتے ہیں: «بطشہ»، «لزام» (بدر) اور دخان کا ذکرو زمانہ گزر گیا اعمش اور منصور دونوں راویوں میں سے، ایک نے کہا: «قمر» (چاند) کا شق ہونا گزر گیا، اور دوسرے نے کہا: روم کے مغلوب ہونے کا واقعہ بھی پیش آ چکا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- «لزام» سے مراد یوم بدر ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاستسقاء 2 (1007)، و13 (1020)، تفسیر سورة یوسف 4 (4693)، وتفسیر سورة الفرقان 5 (4767)، وتفسیر الروم 1 (4774)، وتفسیر ص 3 (4809)، وتفسیر الدخان 1 (4820)، و2 (4821)، و3 (4822)، صحیح مسلم/المنافقین 7 (2798) (تحفة الأشراف: 9574) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: