احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

11: باب مَا جَاءَ فِي وَقْتِ صَلاَةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ
باب: نماز عشاء کے وقت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 165
حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن بشير بن ثابت، عن حبيب بن سالم، عن النعمان بن بشير، قال: انا اعلم الناس بوقت هذه الصلاة، " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصليها لسقوط القمر لثالثة ".
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ اس نماز عشاء کے وقت کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة 7 (419)، سنن النسائی/المواقیت 19 (529)، (تحفة الأشراف: 11614)، مسند احمد (4/270، 274) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: حدیث جبرائیل میں یہ بات آ چکی ہے کہ عشاء کا وقت شفق غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے، یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں، رہی یہ بات کہ اس کا آخری وقت کیا ہے تو صحیح اور صریح احادیث سے جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ اس کا آخری وقت طلوع فجر تک ہے جن روایتوں میں آدھی رات تک کا ذکر ہے اس سے مراد اس کا افضل وقت ہے جو تیسری رات کے چاند ڈوبنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عموماً اسی وقت نماز عشاء پڑھتے تھے، لیکن مشقت کے پیش نظر امت کو اس سے پہلے پڑھ لینے کی اجازت دے دی۔ (دیکھئیے اگلی حدیث رقم ۱۶۷)

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (613) ، صحيح أبي داود (445)

Share this: