احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

30: باب مَا جَاءَ فِي النُّحْلِ وَالتَّسْوِيَةِ بَيْنَ الْوَلَدِ
باب: عطیہ دینے اور اولاد کے درمیان برابری کرنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1367
حدثنا نصر بن علي , وسعيد بن عبد الرحمن المخزومي المعنى واحد , قالا: حدثنا سفيان , عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن , وعن محمد بن النعمان بن بشير يحدثان، عن النعمان بن بشير , ان اباه نحل ابنا له غلاما , فاتى النبي صلى الله عليه وسلم يشهده، فقال: " اكل ولدك نحلته مثل ما نحلت هذا " , قال: لا , قال: " فاردده ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وقد روي من غير وجه , عن النعمان بن بشير , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم , يستحبون التسوية بين الولد , حتى قال بعضهم: يسوي بين ولده حتى في القبلة , وقال بعضهم: يسوي بين ولده في النحل والعطية , يعني: الذكر والانثى سواء , وهو قول: سفيان الثوري , وقال بعضهم: التسوية بين الولد ان يعطى الذكر مثل حظ الانثيين مثل قسمة الميراث وهو قول: احمد , وإسحاق.
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے باپ (بشیر) نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں، تو آپ نے ان سے پوچھا: کیا تم نے اپنے تمام لڑکوں کو ایسا ہی غلام عطیہ میں دیا ہے ۱؎ جیسا اس کو دیا ہے؟ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: تو اسے واپس لے لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲- یہ اور بھی سندوں سے نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے مروی ہے۔
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ اولاد کے درمیان (عطیہ دینے میں) برابری کو ملحوظ رکھنے کو مستحب سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ بعض لوگوں نے تو کہا ہے کہ بوسہ لینے میں بھی اپنی اولاد کے درمیان برابری برقرار رکھے،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: بخشش اور عطیہ میں اپنی اولاد یعنی بیٹا اور بیٹی کے درمیان بھی برابری برقرار رکھے۔ یہی سفیان ثوری کا قول ہے،
۵- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: اولاد کے درمیان برابری یہی ہے کہ میراث کی طرح لڑکے کو لڑکی کے دوگنا دیا جائے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الہبة 12 (2586)، والشہادات 9 (2650)، صحیح مسلم/الہبات 3 (1623)، سنن ابی داود/ البیوع 85 (3542)، سنن النسائی/النخل 1 (3702)، 3703)،، 3704، 3709-3712) سنن ابن ماجہ/الہبات 1 (الأحکام) (2375-2376)، (تحفة الأشراف: 11617 و 11638)، و موطا امام مالک/الأقضیة 33 (39)، و مسند احمد (4/268، 269، 270، 276) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اولاد کو ہبہ کرنے میں مساوات کا یہ حکم جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے، موطا میں صحیح سند سے مذکور ہے کہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنے مرض الموت میں عائشہ رضی الله عنہا سے فرمایا تھا «إني كنت نحلت نحلا فلو كنت اخترتيه لكان لك وإنما هو اليوم للوارث» میں نے تم کو کچھ ہبہ کے طور پر دینا چاہا تھا اگر وہ تم لے لیتی تو وہ تمہارا ہو جاتا، اور اب تو وہ وارثوں ہی کا ہے، اسی طرح عمر رضی الله عنہ کا واقعہ طحاوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کو کچھ ہبہ کے طور پر دیا تھا، امام احمد بن حنبل وغیرہ کی رائے ہے کہ اولاد کے درمیان ہبہ میں عدل کرنا واجب ہے اور ایک کو دوسرے سے زیادہ دینا حرام ہے، یہ لوگ شیخین (ابوبکر و عمر رضی الله عنہما) کے ان اقدامات کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ان اقدامات پر ان کے دیگر بچے راضی تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2375 - 2376)

Share this: