احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

22: باب مِنْهُ
باب:۔۔۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2454
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا سفيان، عن ابيه، عن ابي يعلى، عن الربيع بن خثيم، عن عبد الله بن مسعود، قال: " خط لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم خطا مربعا، وخط في وسط الخط خطا، وخط خارجا من الخط خطا، وحول الذي في الوسط خطوطا، فقال: هذا ابن آدم، وهذا اجله محيط به، وهذا الذي في الوسط الإنسان، وهذه الخطوط عروضه إن نجا من هذا ينهشه هذا، والخط الخارج الامل " , هذا حديث صحيح.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع خط (یعنی چوکور) لکیر کھینچی اور ایک لکیر درمیان میں اس سے باہر نکلتا ہوا کھینچی، اور اس درمیانی لکیر کے بغل میں چند چھوٹی چھوٹی لکیریں اور کھینچی، پھر فرمایا: یہ ابن آدم ہے اور یہ لکیر اس کی موت کی ہے جو ہر طرف سے اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اور یہ درمیان والی لکیر انسان ہے (یعنی اس کی آرزوئیں ہیں) اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں انسان کو پیش آنے والے حوادث ہیں، اگر ایک حادثہ سے وہ بچ نکلا تو دوسرا اسے ڈس لے گا اور باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق 4 (6417)، سنن ابن ماجہ/الزہد 27 (4213) (تحفة الأشراف: 9200) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اگر ایک طرف آرزؤں سے بھری ہوئی ہے تو دوسری جانب اسے چاروں طرف سے حوادث گھیرے ہوئے ہیں، وہ اپنی آرزؤں کی تکمیل میں حوادث سے نبرد آزما ہوتا ہے، لیکن اس کے پاس امیدوں اور آرزؤں کا ایک وسیع اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، اس کی آرزوئیں ابھی ناتمام ہی ہوتی ہیں کہ موت کا آہنی پنجہ اسے اپنے شکنجے میں کس لیتا ہے، گویا موت انسان سے سب سے زیادہ قریب ہے، اس لیے انسان کو اس سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: