احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

88: بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ لِلْجُنُبِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ
باب: جنبی جب سونا چاہے تو وضو کر لے۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 120
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر، انه سال النبي صلى الله عليه وسلم: اينام احدنا وهو جنب ؟ قال: " نعم إذا توضا ". قال: وفي الباب، عن عمار , وعائشة , وجابر , وابي سعيد , وام سلمة. قال ابو عيسى: حديث عمر احسن شيء في هذا الباب واصح، وهو قول غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا: إذا اراد الجنب ان ينام توضا قبل ان ينام.
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، جب وہ وضو کر لے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عمار، عائشہ، جابر، ابوسعید اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- عمر رضی الله عنہ والی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے،
۳- یہی قول نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب اور تابعین میں سے بہت سے لوگوں کا ہے اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ جب جنبی سونے کا ارادہ کرے تو وہ سونے سے پہلے وضو کر لے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض 6 (306)، (تحفة الأشراف: 10552)، مسند احمد (1/17، 35) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس سے مراد وضو شرعی ہے لغوی نہیں، یہ وضو واجب ہے یا غیر واجب اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے، جمہور اس بات کی طرف گئے ہیں کہ یہ واجب نہیں ہے اور داود ظاہری اور ایک جماعت کا کہنا ہے کہ واجب ہے۔ اور پہلا قول ہی راجح ہے جس کی دلیل پچھلی حدیث ہے۔
۲؎: یعنی مستحب ہے کہ وضو کر لے، یہی جمہور کا مذہب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (585)

Share this: